Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے قانون میں کی گئی حالیہ ترامیم سے فائدہ حاصل کرنے والے ملزمان کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے جس کے مطابق رواں سال 30 اگست تک 22 ریفرنس نیب عدالتوں سے واپس بھجوائے گئے۔
 جمعے کو نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
دوران سماعت احتساب بیورو نے نیب ترامیم سے فائدہ حاصل کرنے والے ملزمان سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے مطابق ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔
ملزمان خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور خواجہ انور مجید کے مقدمات بھی نیب عدالت سے واپس بجھوائے گئے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی کا کیس بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکل گیا۔
آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے قانون میں ترامیم کے بعد واپس کر دیا جبکہ اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کے خلاف نیب کیسز بھی احتساب عدالت سے واپس ہو گئے۔
رواں سال مجموعی طور پر 22 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے جبکہ ترامیم کی روشنی میں 25 مقدمات دیگر عدالتوں کو منتقل کر دیے گئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھوں۔ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، میوچوئل لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں۔ (فوٹو: ایس سی)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ نے کل کہا تھا کہ ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے لیکن قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔ نیب ترامیم کے ذریعے بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔‘
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے کہا  کہ نیب کی حراست میں ملزم کو دباؤ میں لاکر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے۔ مخدوم علی خان  نے کہا کہ یہ درست ہے کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباؤ ڈال کر پلی بارگین کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سندھ میں ایک کیس کی مثال موجود ہے۔ اس کیس میں پلی بارگین کر کے رقم طے کی گئی بعد میں تمام اثاثوں کا دوبارہ تخمینہ لگایا گیا۔ بتائیں پلی بارگین کی نیب شق میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے دوران سماعت کہا کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان کے قانون میں بیرون ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے۔ ’ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے۔‘
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو ساڑھے بارہ بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو وہ کچھ وقت لیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے نے کہا کہ ’پیر تک وقت نہیں تحریری طور پر معروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔‘
دوران سماعت نیب ترامیم کے خلاف کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے، کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اور اہل خانہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون سازی کی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں۔ اس وقت عام انتخابات سر پر ہیں۔ میرے ذہن میں ایک ہی حل ہے کہ نئی پارلیمنٹ آ کر ترامیم کو ختم کر دے ورنہ ایسے تو پورا نظام ہی ختم جائے گا۔ حل تو صرف یہی ہے ایسے لوگوں کو دوبارہ ووٹ ہی نہ دیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔ میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جن کو نقصان پہنچایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں ہونا چاہیے کسی اکاؤنٹنٹ کو بٹھا کر 10 روپے کی غلطی نکالی جائے۔ قانون کے مطابق کاروبار کرنے والی شخصیات کے خلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا۔ کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’پارلیمنٹیرین عوام کا امین ہوتا ہے۔ سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا۔ کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں۔ بدنیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی۔ کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے۔ داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اور فیئر معاشرہ قائم کرے۔ ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزاد نہ گھومیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ بنیادی حقوق کے براہ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں۔ لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا۔ قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاؤنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے۔ بری طرز حکومت ہو گی یا مجرمانہ معاشرہ ہو گا تو لوگ چلے جائیں گے۔
عدالت نے دلائل کے بعد کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

شیئر: