چھاپوں اور تحقیقات کے باوجود پاکستانی پولیس سارہ شریف کے والد کو ڈھونڈنے میں ناکام
چھاپوں اور تحقیقات کے باوجود پاکستانی پولیس سارہ شریف کے والد کو ڈھونڈنے میں ناکام
پیر 4 ستمبر 2023 10:46
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
چھاپوں میں ناکامی کے بعد پولیس ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کر رہی ہے۔ (فوٹو: سکائی نیوز)
گزشتہ ماہ اپنے گھر میں مردہ پائی گئی 10 سالہ برطانوی بچی سارہ شریف کے مفرور والد، سوتیلی ماں، ایک چچا اور ان کے ساتھ پانچ بچوں کو ڈھونڈنے میں پاکستانی پولیس تاحال ناکام ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کی پولیس نے چند روز پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور میں بھی ایک جگہ پر چھاپہ مارا لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اس خاندان کے کسی فرد تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔
سارہ شریف کے والد عرفان شریف نے 10 اگست کو پاکستان پہنچنے کے بعد برطانوی پولیس کے ایمرجنسی نمبر پر سارہ کی موت کی خبر دی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ وہ برطانوی علاقے سرے میں واقع گھر جا کر ان کی لاش سنبھال لیں۔ اس کے بعد وہ اپنے آبائی شہر جہلم گئے جس کے بعد سے وہ اپنی اہلیہ بینش بتول، بھائی ملک فیصل اور پانچ بچوں سمیت غائب ہیں اور اس پورے خاندان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔
گذشتہ تین ہفتوں سے جہلم پولیس نے ان کو پکڑنے کے لیے سر توڑ کوششیں کی لیکن کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔
پنجاب پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے روز ایک تازہ کارروائی میں انہوں نے ایک اطلاع پر میرپور میں ایک گھر پر چھاپہ مارا اور وہاں موجود عرفان شریف کی اہلیہ بینش بتول کے رشتہ داروں سے پوچھ گچھ کی لیکن انہیں نہ تو مطلوب افراد میں سے کوئی ملا اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی اہم معلومات مل سکیں۔
اس بارے میں جہلم پولیس کے ترجمان محمد مدثر کے مطابق یہ چھاپہ ایک اہم اطلاع پر مارا گیا تھا لیکن پولیس ٹیم جب وہاں پہنچی تو انہیں کچھ نہیں ملا اور بینش بتول کے رشتہ داروں نے انہیں بتایا کہ وہ ایک طویل عرصے سے انہیں نہیں ملے۔
اس معاملے پر تحقیقات کرنے والے جہلم پولیس کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ چھاپوں میں ناکامی کے بعد پولیس ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کر رہی ہے اور کچھ ایسی گاڑیوں کی فوٹیج تلاش کر رہی ہے جو عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور ان کے بھائی فیصل شریف کی نقل و حمل میں استعمال ہوئی ہیں۔
عرفان شریف کی گرفتاری کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں
دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کا راولپنڈی بینچ منگل کے روزایک درخواست کی سماعت کرے گا جس میں عرفان شریف کے والد محمد شریف نے استدعا کی ہے کہ پولیس نے ان کے رشتہ داروں کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور ان کے خاندان کو ناجائز طور پر تنگ کر رہی ہے حالانکہ ان کا برطانیہ میں سارہ شریف کی موت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سے قبل بھی انہوں نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے دو بیٹوں ملک عمران شریف اور ملک ظریف کو ناجائز طور پر حراست میں لیا گیا لیکن بعد ازاں انہوں نے یہ درخواست واپس لے لی تھی جس کے ساتھ ہی ان کے بیٹے بھی گھر واپس آ گئے تھے۔
عرفان شریف کی دو نہیں تین شادیاں
عرفان شریف کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ 2000 کے اوائل میں سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ گئے تھے جہاں انہوں نے 2009 میں پولینڈ کی ایک خاتون اولگا سے شادی کی تھی جس سے ان کے دو بچے 13 سالہ نعمان شریف اور 10 سالہ سارہ شریف پیدا ہوئیں۔ اولگا سے علیحدگی کے بعد انہوں نے میر پور سے تعلق رکھنے والی بینش بتول سے شادی کی جس سے ان کے چار بچے ہیں۔
تاہم عرفان کے چچا محمد فاروق کے مطابق انہوں نے برطانیہ جانے سے پہلے اپنی ایک کزن سے شادی کر رکھی تھی جن کو انہوں نے بعد ازاں چھوڑ دیا تھا۔
جہلم پولیس کے ترجمان کے مطابق 10 اگست کے بعد سے پولیس نے جہلم، راولپنڈی، سیالکوٹ اور میر پور سمیت کئی شہروں میں دو درجن کے قریب چھاپے مارے تاہم انہیں اب تک ایسا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس سے وہ عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور بھائی ملک فیصل کے قریب پہنچ سکیں۔
عرفان شریف کے بھائیوں نے اس کو ایئر پورٹ سے لیا
ایک پولیس افسر کے مطابق عرفان شریف برطانیہ سے فرار ہو کر جب پاکستان آیا تو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال بھائیوں ملک عمران اور ملک ظریف نے کیا جس کے بعد وہ ایک دن اپنے گھر پر مقیم رہا۔ اس دوران انٹرپول کی طرف سے پاکستانی حکام کو ایک خط بھجوایا گیا جس میں عرفان اور اس کے ساتھ برطانیہ سے آنے والے دوسرے افراد کو ڈھونڈنے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ دو روز تک اپنی ایک بہن کے گھر پر رہا اور پھر وہاں سے کہیں اور منتقل ہو گیا۔
اس خط کے موصول ہونے کے بعد جہلم پولیس اور کئی دوسرے پاکستانی ادارے ان کو تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی۔
پولیس کارروائی میں محتاط
اس بارے میں پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ اعلٰی حکام ابتدائی طور پر کارروائی میں متذبذب رہے کیونکہ ابھی برطانوی پولیس نے بھی عرفان شریف اور ان کے ساتھ موجود دوسرے لوگوں کو سارہ شریف کی موت کا ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ انہیں ابھی محض مشکوک قرار دیا جا رہا ہے۔ اور انٹرپول کی جانب سے بھیجے گئے خط میں بھی انہیں گرفتار کرنے کا نہیں بلکہ ڈھوندنے کا کہا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی حکام محتاط رہے کیونکہ ان کو گرفتار کرنے سے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم برطانوی میڈیا کے مطابق سارہ شریف کی لاش کے قریب سے انہیں بینش بتول کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ ملا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے شوہر نے سارہ شریف پر تشدد کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ برطانوی پولیس کے مطابق سارہ شریف کے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات ہیں تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کی موت میں کسی خاص چوٹ کے عمل دخل کا پتہ نہیں چل سکا۔ اسبارے میں عرفان شریف کے خاندان کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آ چکا ہے کہ ان کی موت سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
مقامی ذرائع نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ کچھ پولیس اہلکار عرفان شریف کی خفیہ طور پر مدد بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ پکڑے بھی جائیں تو ان کو برطانیہ بھجوانا آسان نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین مجرموں کے تبادلے کے لیے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
عرفان شریف کی برطانیہ حوالگی میں کئی ماہ لگیں گے
اسلام آباد میں ایف آئی اے کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ وہ عرفان شریف کو پکڑنے کے لیے زمینی سطح پر کوئی تفتیش نہیں کر رہے تاہم ان کا انٹرپول شعبہ معاملے کو دیکھ رہا ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق عرفان شریف کو ڈھونڈنے کے بعد ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے وفاقی کابینہ سے دو مرتبہ منظوری لینی پڑے گی۔ پہلی مرتبہ ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ ان کو برطانیہ بھجوانے کے لیے، کیونکہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کسی مجرم کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اگر وہ پکڑا بھی جائے تو اس کو برطانیہ بھجوانے میں کئی ماہ اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔
عرفان شریف کے خاندان کا مجرمانہ ریکارڈ
عرفان شریف کے جہلم میں آبائی گاؤں کڑی کے نمبردار چوہدری عبدالرشید کے مطابق ان کے خاندان کی مجرمانہ تاریخ ہے اور کچھ عرصہ قبل اس کا بھائی لین دین کے ایک مقدمے میں غبن کے الزام کے بعد فرار ہو گیا تھا جبکہ عرفان شریف کے والد کو اس وجہ سے چند سال اڈیالہ جیل میں رہنا پڑا تھا۔ بعد ازاں دوسرے فریق سے معاملات طے ہونے کے بعد انہیں رہائی ملی تھی۔