Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد میں دکانداروں کو لوٹنے والا گروہ ’پنڈی بوائز‘

سید عبداللہ ہی نہیں بلکہ کئی دیگر دکاندار بھی اس بھتہ خوری سے تنگ ہیں۔ (فائل فوٹو: سڈنی کریمنل لائرز)
’جب وزیرستان میں شدت پسندی نے زور پکڑا تو ہمیں طالبان کی طرف سے بھتے کی پرچیاں موصول ہونے لگیں، جس سے ڈر کر ہم لوگوں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ یہاں پر کہیں جوس، کہیں برف اور کہیں فروٹ سبزی کی ریڑھیاں لگا کر بیوی بچوں کا پیٹ کاٹتے ہیں۔ لیکن اب یہاں پر ’پنڈی بوائز‘ نے جینا حرام کر دیا ہے۔ موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور صبح سے شام تک ساری کمائی چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سید عبداللہ کا جو اسلام آباد کے علاقے کھنہ پل میں برف اور جوس کی ریڑھی لگاتے ہیں، لیکن بھتہ خوری سے اتنے تنگ ہیں کہ کہتے ہیں کہ ’دل کرتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کر لوں۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد میں چھوٹے دکان دار سے بھتہ وصولی کا سلسلہ کچھ ماہ پہلے شروع ہوا جب موٹر سائیکل سوار جو خود کو ’پنڈی بوائر‘ کہتے ہیں، آتے اور پستول دکھا کرکبھی پانچ سو تو کبھی ہزار روپے لے جاتے۔ ڈر کے مارے کوئی دکاندار بولا نہیں اور وہ بھتہ دیتے رہے۔ 
سید عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’اب یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے تنگ آ گئے ہیں۔ پستول کے ذریعے وہ ہمیں ڈراتے ہیں دھمکاتے ہیں اور یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ پرسوں میرا پورا گلّہ اٹھا کر لے گئے۔ اب ہم بے بس ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے قانون کا دروزہ کھٹکھٹایا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکام نوٹس لیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔‘
’پنڈی بوائز‘ کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ چند برس قبل کھنہ پل کے علاقے میں باکسر گروپ ہوا کرتا تھا۔ جس کی آپسی لڑائی میں ایک بندہ قتل ہوا اور اس کے بعد کئی ایک چھوٹے گروہ بنے جن میں ایک ’پنڈی بوائز‘ کے نام سے ہے۔ 
اس گروہ میں پاکستان اور افغان لڑکے شامل ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی چوری، ڈکیتی اور اب بھتہ خوری ہے۔ 
سید عبداللہ ہی نہیں بلکہ کئی دیگر دکاندار بھی اس بھتہ خوری سے تنگ ہیں لیکن کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے اس وجہ سے خاموشی سے کچھ رقم دے کر جان چھڑا رہے تھے۔ 
دکاندار شیر آغا نے کہا کہ ’کافی عرصے سے وہ آتے اور پستول دکھاتے اور رقم لے جاتے تھے۔ لیکن اب وہ سیدھا گلّے میں ہاتھ ڈالنے لگے ہیں اور کبھی کبھار تو پورا پورا گلّہ ہی لے جاتے ہیں۔ ہم تو بے بس ہیں ہی لیکن حکام بھی کوئی کارروائی نہیں کرتے۔‘
رئیس خان، جن کی چند دن قبل پورے دن کی سیل لوٹ لی گئی تھی، بتایا کہ ’بندہ آیا اور پستول دکھا کر کہا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں کو ایک طرف کر دو اور گلّہ مجھے دے دو۔ میں نے اس کو بٹھایا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ منت سماجت کے بعد پورے دن کی سیل میں جو 65 ہزار تھی اس میں سے 35 ہزار لے گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس صورت حال سے تنگ آ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ اب مزید نہیں لٹنا اور ہم نے تھانہ کھنہ میں درخواست دے دی ہے۔ 

اسلام آباد پولیس نے ایف آئی آر میں بھتہ خوری اور اسلحہ دکھا کر دھمکیاں دینے کی دفعات شامل کی ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اس معاملے پر پولیس کا مؤقف ہے کہ حالیہ واقعات کے نتیجے میں ایف آئی آر درج کر کے ایک ملزم اسد عرف بلا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم ملزم نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ وہ دکاندار کے پاس کام کرتا تھا اور اس کے 25 ہزار روپے قابل وصول تھے لیکن دکاندار ادائیگی نہیں کر رہا تھا۔ اس وجہ سے پستول دکھا کر اپنی رقم واپس لینے کی کوشش کی، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ تمام دکاندار پستول والوں سے ڈرتے ہیں اور ان کو رقم دے کر اپنی جان اور کاروبار بچاتے پھرتے ہیں۔ 
ایک سوال کے جواب میں متعلقہ پولیس افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ بھتہ خور گروہوں کے خلاف کارروائی اس لیے بھی مشکل ہے کہ ایک تو ان کو ’مقامی سیاسی خاندان‘ کی سرپرستی حاصل ہے۔ دوسرا اگر کوئی دکاندار شکایت لے کر آ بھی جائے تو اگلے دن صلح نامہ دے جاتا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ اب پولیس میں اوپر کی سطح پر زِیربحث ہے لیکن دکاندار کسی بڑے بھتہ خور کا براہ راست نام لینے سے بھی گبھراتے ہیں۔‘
ان کے مطابق موجودہ وقوعہ کی جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں بھتہ خوری اور اسلحہ دکھا کر دھمکیاں دینے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

شیئر: