’جب وزیرستان میں شدت پسندی نے زور پکڑا تو ہمیں طالبان کی طرف سے بھتے کی پرچیاں موصول ہونے لگیں، جس سے ڈر کر ہم لوگوں نے اسلام آباد کا رخ کیا۔ یہاں پر کہیں جوس، کہیں برف اور کہیں فروٹ سبزی کی ریڑھیاں لگا کر بیوی بچوں کا پیٹ کاٹتے ہیں۔ لیکن اب یہاں پر ’پنڈی بوائز‘ نے جینا حرام کر دیا ہے۔ موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور صبح سے شام تک ساری کمائی چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سید عبداللہ کا جو اسلام آباد کے علاقے کھنہ پل میں برف اور جوس کی ریڑھی لگاتے ہیں، لیکن بھتہ خوری سے اتنے تنگ ہیں کہ کہتے ہیں کہ ’دل کرتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کر لوں۔‘
مزید پڑھیں
-
راولپنڈی میں خاتون کے ساتھ ڈکیتی اور تشدد میں ملوث ملزم گرفتارNode ID: 791786
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد میں چھوٹے دکان دار سے بھتہ وصولی کا سلسلہ کچھ ماہ پہلے شروع ہوا جب موٹر سائیکل سوار جو خود کو ’پنڈی بوائر‘ کہتے ہیں، آتے اور پستول دکھا کرکبھی پانچ سو تو کبھی ہزار روپے لے جاتے۔ ڈر کے مارے کوئی دکاندار بولا نہیں اور وہ بھتہ دیتے رہے۔
سید عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’اب یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہم اپنی زندگی سے تنگ آ گئے ہیں۔ پستول کے ذریعے وہ ہمیں ڈراتے ہیں دھمکاتے ہیں اور یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ پرسوں میرا پورا گلّہ اٹھا کر لے گئے۔ اب ہم بے بس ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے قانون کا دروزہ کھٹکھٹایا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکام نوٹس لیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔‘
’پنڈی بوائز‘ کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ چند برس قبل کھنہ پل کے علاقے میں باکسر گروپ ہوا کرتا تھا۔ جس کی آپسی لڑائی میں ایک بندہ قتل ہوا اور اس کے بعد کئی ایک چھوٹے گروہ بنے جن میں ایک ’پنڈی بوائز‘ کے نام سے ہے۔
اس گروہ میں پاکستان اور افغان لڑکے شامل ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی چوری، ڈکیتی اور اب بھتہ خوری ہے۔
سید عبداللہ ہی نہیں بلکہ کئی دیگر دکاندار بھی اس بھتہ خوری سے تنگ ہیں لیکن کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے اس وجہ سے خاموشی سے کچھ رقم دے کر جان چھڑا رہے تھے۔
دکاندار شیر آغا نے کہا کہ ’کافی عرصے سے وہ آتے اور پستول دکھاتے اور رقم لے جاتے تھے۔ لیکن اب وہ سیدھا گلّے میں ہاتھ ڈالنے لگے ہیں اور کبھی کبھار تو پورا پورا گلّہ ہی لے جاتے ہیں۔ ہم تو بے بس ہیں ہی لیکن حکام بھی کوئی کارروائی نہیں کرتے۔‘
رئیس خان، جن کی چند دن قبل پورے دن کی سیل لوٹ لی گئی تھی، بتایا کہ ’بندہ آیا اور پستول دکھا کر کہا کہ اپنے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں کو ایک طرف کر دو اور گلّہ مجھے دے دو۔ میں نے اس کو بٹھایا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ منت سماجت کے بعد پورے دن کی سیل میں جو 65 ہزار تھی اس میں سے 35 ہزار لے گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس صورت حال سے تنگ آ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ اب مزید نہیں لٹنا اور ہم نے تھانہ کھنہ میں درخواست دے دی ہے۔
