آپ ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئے ہیں، ایسا سوچنے کےلئے بعض ناگزیر اقدامات کرنے ہونگے، آپ کو کمرے میں ایئر کنڈیشنرچلانا ہوگا تاکہ ماحول یخ بستہ ہوجائے اور آپ خود کو سرد ملک میں محسوس کر سکیں
شہزاد اعظم
پہلی، دوسری اور تیسری دنیائیں موجود تو اسی کرہ¿ ارض پر ہیں مگر ان کی ہر ہر چیز میں بے حد فرق یا اختلاف پایاجاتاہے۔ پہلی دنیا اُن ممالک کو کہا جاتا ہے جو ترقی یافتہ ہیں، دوسری دنیا وہ ہے جو ترقی کے حوالے سے پہلی دنیا کے قریب تر ہے اور تیسری دنیاوہ ہے جو ترقی کا راگ الاپنے والوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔پہلی دنیا کے لوگ ہم جیسے تیسری دنیا کے لوگوں سے خواہ کتنے ہی آگے سہی مگر انہیں زندگی کے ایسے گوناگوں تجربات نہیں ہوتے جو تیسری دنیا اور خصوصاً ہمارے ملکوں کے لوگوں کو میسر آتے ہیں۔پہلی دنیا یعنی عالمِ اول کے لوگوں کو ہمارے جیسے تجربات کسی طور نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ”قیمتی تجربات“ ترقی کی ضد ہیں اور صرف ان لوگوں کا مقدر ہو سکتے ہیں جونیم ترقی، پسماندگی یا عدم ترقی کے ماحول میں جی رہے ہوں۔یہ معاملہ ہی اس قدر گمبھیر ہے کہ بآسانی سمجھ نہیں آ سکتا اس لئے ہم اسے ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی ”کامیاب کوشش“ کرتے ہیں۔ آئندہ ان سطور میں ”شق وار “ انداز میں بیان جاری رکھا جائے گا تو آئیے:
کچھ دیر کےلئے یہ سوچیںکہ آپ ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔ ایسا سوچنے کےلئے آپ کو بعض ناگزیر اقدامات کرنے ہوں گے ۔ آپ کو کمرے میں ایئر کنڈیشنرچلانا ہوگا تاکہ ماحول یخ بستہ ہوجائے اور آپ خود کو سرد ملک میں موجود محسوس کر سکیں۔ اب آپ کو اپنی آنکھیں بھی بند کرنی ہوں گی تاکہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ سمجھنے کا ”ناممکن تصور“ کیاجا سکے کیونکہ آنکھیں کھلی ہوں تو ناممکنات کے بارے میں کچھ سوچنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ اب سوچیں کہ آپ5 سال کے ہوتے ہی اسکول میں داخل ہوگئے ہوتے۔آپ کو بے تحاشا مسرت ہوتی ۔ آپ روزانہ اسکول جانے کا انتظار کرتے ، ہر صبح 6بجکر 53 منٹ پر اسکول کی بس آتی، اس میں سے ”انگریزی ماسی “یعنی ”سسٹر“ برآمد ہوتی ۔ آپ کو نشست پر بٹھاتی۔ دروازہ خودکارانداز میں بندہوتا اور بس چل پڑتی۔ اسکول میں روزانہ سبق پڑھایاجاتا، آپ کو سمجھ آجاتا، سال گزرنے کے بعد آپ کا امتحان ہوتا، اس میں آپ کامیاب ہو جاتے اور اگلی جماعت میں پہنچ جاتے ۔ اسکولی تعلیم مکمل کرنے کے بعدآپ کالج پہنچتے، جہاں ”نوخیز آزادی “ میں آپ کو 2سال گزارنے کا موقع عطا ہوتا۔آپ کے ڈیڈی بن مانگے آپ کو ہیوی بائیک کا تحفہ دے دیتے۔آپ روزانہ اسی پر کالج جاتے اور گاہے بگاہے اپنی ہم جماعت کسی شخصیت کو بھی بائیک پر بٹھا کر کالج لے جاتے۔وہاں لیکچر دیاجاتا، آپ نہ صرف سنتے بلکہ سمجھ بھی لیتے اور یوںامتحان در امتحان دے کر کامیاب ہوجاتے اور پھر یونیورسٹی پہنچ جاتے جہاں آپ اپنی مرضی سے ”دھاتی انجینیئرنگ،تعمیراتی انجینیئرنگ، معلوماتی انجینیئرنگ، نباتاتی انجینیئرنگ یا شماریاتی انجینیئرنگ“میں سند حاصل کر لیتے ۔ یہ نہیں تو دنیائے طب میں اپنی لیاقت کے ڈنکے بجانے کےلئے ماہر امراضِ ریوی، ماہر امراضِ معوی، ماہرِ امراضِ قلبی، ماہر امراضِ چشمی، ماہر امراضِ عصبی یاماہر امراضِ عظمی بن جاتے، سند ملتے ہی پیشہ ورانہ خدمات کی صدقِ دل سے انجام دہی پر مامور ہوجاتے پھراپنے گرد و پیش میں موجود، صنفِ نازک کہی جانے والی ہستیوں کے جم غفیرمیں سے دیکھ بھال کر ، چھانٹ کر کوئی ایک بیاہ کر گھر لے آتے اورپھر کچھ عرصے کے بعد اپنے بچے کو اسکول میں داخل کرانے پہنچ جاتے ۔ یوں آپ”خود بچہ ہونے سے اپنے بچہ ہونے تک “کے مراحل کسی رکاوٹ کے بغیرانتہائی سہولت کے ساتھ طے کر لیتے ۔ زندگی انتہائی پر سکون اندازمیں گزرتی مگر آپ کا دامن تجربات سے خالی رہتا۔
اب آپ آنکھیں کھول لیجئے تاکہ زمینی حقائق سے نبردآزما ہو سکیںکہ آپ تیسری دنیاکے باسی ہیں۔آپ5سال کے ہوچکے ہیں مگرجیسے ہی آپ کو اسکول میں داخل کرانے کا نام لیاجاتا ہے آپ منہ پھاڑ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ابا آپ کو ڈانٹتے ہیں، امی آپ پر رحم کھاتی ہیں اور اپنے شوہر سے کہہ دیتی ہیں کہ ابھی رہنے دیں، میں اسے سمجھا لوں گی۔ یونہی وقت گزرتا جاتا ہے۔ آپ کی عمر7سال ہو جاتی ہے ۔ ایک روز ابا غصے میں لال ہو کرآپ کو پیلے اسکول میں داخل کرانے پہنچ جاتے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر عمر پوچھتا ہے تو آپ 2سال کم کر کے 5سال بتاتے ہیں۔یوں جھوٹ بول کرابا اپنے بیٹے کوسرکاری اسکول میں ”جمع“ کرا دیتے ہیں۔وہاں روزانہ ماسٹربرا بھلا کہتا ہے، ڈنڈے سے مارتا ہے، مرغا بناتا ہے۔ آپ اسکول کے نام سے خوفزدہ ہونے لگتے ہیں۔ ہر روز صبح کو ابا کہتے ہیں کہ اسکول جاناہے، بستر سے نکل آﺅ، مگر آپ بہانے کرتے ہیں کہ میرے پیٹ میں درد ہے۔ ابا اپنا جوتا نکال کر آپ کی دھنائی شروع کر دیتے ہیں، آپ روتے پیٹتے ہیں اور ابا آپ کو زبردستی اسکول چھوڑ کر آتے ہیں۔کمرہ¿ جماعت میں داخل ہوتے ہی ماسٹر مرغا بنا دیتا ہے کہ تاخیر سے کیوں آئے ہو؟ماسٹرنے آپ کو جو کچھ پڑھایا تھا وہ آپ کی سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا اس لئے یاد بھی نہیں ہو سکاجس کی پاداش میں آپ کو ڈنڈے سے مار پڑتی ہے ۔ ان ناگفتہ بہ تدریسی حالات سے تنگ آ کر آپ اسکول سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ سالانہ امتحان میںنقل کر کے کسی نہ کسی طرح پاس ہوجاتے ہیں اورکئی برس گزارکرگرتے پڑتے نمبروں سے 10ویں کا امتحان پاس کر کے پیلے اسکول سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ اب کسی گئے گزرے کالج میںسفارش سے داخلہ مل جاتا ہے۔ گھر والے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ بیٹا کالج میں پہنچ گیا ہے۔وہاں ماسٹر مرغا بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا چنانچہ آپ کو انجانی آزادی کا احساس ہوتا ہے جو درس و تدریس سے آپ کو بہت دور لے جاتا ہے۔2سال گزرنے کے بعد جب امتحانی نتیجہ سامنے آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کسی جامعہ میںداخلے کے قابل نہیں چنانچہ آپ پرائیویٹ اُمیدوار کے طور پر بی اے کا امتحان دیتے ہیں اور رشوت وغیرہ دے دلاکر 14ویں جماعت کی سند حاصل کر لیتے ہیں۔پھر نوکری کی تلاش شروع کر دیتے ہیں، کئی برس تک ملازمت ہی نہیں ملتی، جس مہ جبیں کے ہاں رشتہ بھیجتے ہیں، وہ انکار کر دیتی ہے کہ نوکری ہے نہیں، منہ اٹھا کر شادی کرنے چلے آئے۔ کئی برس کی تلاشِ بسیار کے بعد نجی ادارے میں معمولی ملازمت مل جاتی ہے تو آپ دل کو بہلاتے ہیں کہ ”سَم تھنگ اِز بیٹر دَین نتھنگ“۔دماغی تناﺅ، پیسے کی قلت ، بال گرنے اورشادی کےلئے لڑکی نہ ملنے کے باعث آپ شکلاً اور عملاً ادھیڑ عمر شخص دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ اسی اثنا ءمیں ایک مطلقہ آپ کو پسند کر لیتی ہے اور آپ موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے شادی کر بیٹھتے ہیں۔ صرف51دن اچھے گزرتے ہیں اور اس کے بعد دلہن آپ سے لٹھم لٹھا ہونا شروع کردیتی ہے۔ آپ سر پکڑ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی دوران آپ کے ہاں ایک مُنا آجاتا ہے۔ 5سال بعد آپ اسے اسکول میں داخل کرانے کا ارادہ کرتے ہیں مگر وہ منہ پھاڑ پھاڑ کر روتا ہے۔یونہی وقت گزر تاجاتا ہے، اسکی عمر 7سال ہوجاتی ہے اور آپ ایک روز غصے سے لال ہو کر اسے پیلے اسکول میں ”جمع“ کرا آتے ہیں۔ وہاں ماسٹر اسے جو پڑھاتا ہے وہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا ، استاد اس کی چھترول کرتا ہے، مرغا بناتا ہے،پھراسے بھی ”قیمتی تجربات “ ہوتے ہیں اور بتدریج وہ بھی بڑا ہوجاتا ہے،ادھیڑ ہو کر کلرک بھرتی ہوجاتا ہے۔ کم از کم70سال سے یہی سلسلہ جاری ہے۔نجانے کب کرینگے ہم ترقی؟
******