انڈیا، کینیڈا تنازع: امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کہاں کھڑے ہیں؟
انڈیا، کینیڈا تنازع: امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کہاں کھڑے ہیں؟
منگل 19 ستمبر 2023 15:40
کینیڈا نے قتل کے واقعے کے بعد ایک اعلٰی انڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹورنٹو سٹار)
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی سکھ رہنما کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرنے کے بعد شروع ہونے والا سفارتی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور امریکہ اور برطانیہ کے بعد آسٹریلیا نے بھی نہ صرف اس معاملے پر تبصرہ کیا بلکہ کینیڈا کے الزامات پر سخت تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ اور برطانیہ نے اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے رپورٹرز کو بتایا کہ امریکہ نے انڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ الزامات کی تحقیقات میں تعاون کریں۔
آسٹریلوی وزرات خارجہ کے ترجمان کا بھی کہنا ہے آسٹریلیا کو ان الزامات پر شدید تشویش ہے۔ ’ہم اپنے پارٹنر کے ساتھ اس معاملے پر قریبی رابطے میں ہیں۔ ہم نے انڈیا سے اپنی تشویش سینئر لیول پر شیئر کیا ہے۔‘
اس معاملے میں کینیڈا پہلے ہی ایک انڈین سفارتکار کو اس معاملے پر ملک بدر کر چکا ہے۔ کینیڈین وزیر خارجہ کے مطابق اس معاملے میں ملک بدر کیے گئے انڈین سفارتکار پون کمار کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ تھے۔
تاہم انڈین حکومت نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے جوابی کارروائی کے طور پر انڈیا میں کینیڈا کے ایک سینیئر سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا کہا تھا۔
قبل ازیں وائٹ ہاؤس سکیورٹی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’ہمیں ان الزامات پر شدید تشویش ہے جن کا اظہار وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیا ہے۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کینیڈا میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یہ ضروری ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
برطانیہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ ’سنجیدہ الزامات‘ پر کینیڈا کے ساتھ رابطے میں ہے۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے ترجمان کا کہنا ہے کہا کہ برطانوی حکومت ’سنجیدہ الزامات‘ پر کینیڈا کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم اس کا انڈیا اور برطانیہ کے درمیان جاری تجارتی مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انڈیا کو اکسا نہیں رہے جواب مانگ رہے ہیں: وزیراعظم ٹروڈو
دریں اثنا کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ ان انڈیا کو اکسا نہیں رہے ہیں بلکہ ہردیب سنگھ نجر کے قتل پر جواب مانگ رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رپورٹرز کے ساتھ گفتگو میں جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ کینیڈا چاہتا ہے کہ انڈیا اس ایشو کو مناسب طریقے سے ایڈریس کریں۔
وزیراعظم ٹروڈو کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون میں اس کیس کے بڑے دور رس نتائج ہوں گے۔
’انڈین حکومت کو اس ایشو کو نہایت سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہم بھی وہی کر رہے ہیں، ہم تنازع کو بڑھانا یا اکسانا نہیں چاہتے۔‘
خیال رہے پیر کو کینیڈین پارلیمنٹ میں وزیراعظم ٹروڈو نے کہا تھا کہ ’گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کینیڈین سکیورٹی ایجنسیاں انڈین حکومت کے ایجنٹوں اور ایک کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے درمیان ممکنہ تعلق کے قابلِ اعتبارالزامات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کینیڈا نے انڈین حکومت سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ’کینیڈا کی سرزمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔‘
کینیڈا کے وزیراعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس سکیورٹی کونسل کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کینیڈا میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یہ ضروری ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ ’سنجیدہ الزامات‘ پر کینیڈا کے ساتھ رابطے میں ہے۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے ترجمان کا کہنا ہے کہا کہ برطانوی حکومت ’سنجیدہ الزامات‘ پر کینیڈا کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم اس کا انڈیا اور برطانیہ کے درمیان جاری تجارتی مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس سے قبل کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں مبینہ طور پر انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہوئے ایک اعلٰی انڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا تھا۔
انڈیا میں سکھوں کی خالصتان تحریک کی حامی شاخ سے منسلک رہنے والے عہدیدار ہردیپ سنگھ نجار کو رواں سال 18 جون میں برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ گردوارے کے اندر موجود تھے۔
ہردیپ سنگھ خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ رہے تھے۔
ہردیپ سنگھ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو کم از کم چار کیسز میں مطلوب تھے ان پر شدت پسندی اور ہندو پنڈت کے قتل کے لیے سازش کرنے کے علاوہ علیحدگی پسند سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) تحریک چلانے اور دہشت گردی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے الزامات تھے۔