Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو مسلم لیگ ن سے کون سی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں؟

فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی کہا کہ انتخابات میں چودہ جماعتوں سے اتحاد ممکن نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا اعتراض ن لیگ سے ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا تمام سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ الیکشن کا مطالبہ کریں۔
انہوں نے اپنی اس بات کو زرا آگے بڑھاتے ہوئے اشارہ دیا کہ پیپلزپارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات اس لیے کر رہی ہے کیونکہ صوبہ سندھ میں ترقیاتی سکیموں کی اجازت نہیں دی جار ہی اور وفاق میں ترقیاتی سکیموں پر کام ہو رہا ہے۔
ان کی اس بات کی مزید وضاحت پپلز پارٹی کے سینیٗر رہنما خورشید شاہ نے یہ کہہ کر کی ہے کہ نگران وفاقی حکومت کے اہم وزرا ٗ کا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہے اور صوبہ سندھ میں ناجائز طور پر افسران کے ترقیاں اور تبادلے ہو رہے ہیں جو کہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں نہیں ہو رہے۔
انہوں نے منگل کی رات جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری مسلم لیگ نواز سے لڑنا نہیں چاہ رہے اس لیے بلاول کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اگر بلاول کے ہاتھ کھول دیں تو پھر ملک میں اسی کی دہائی والی سیاست واپس آ جائے گی۔
ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز پی ڈی ایم کی حکومت میں 14 ماہ تک مل کر چلے ہیں اور اگر وہ مل کر نہ چلتے تو یہ حکومت 14 ماہ تو کیا چودہ دن نہ چل سکتی۔ 
تاہم انہی کے ایک ساتھی خرم دستگیر نے اپنی ایک گفتگو میں کہا ہے کہ اگر بلاول کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا گلہ کرنا ہے تو مقتدرہ سے کریں۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’جو حکومت تھی، پندرہ جماعتیں تھیں ان سب کو اپنی ذمہ داری بھی قبول کرنی ہے اگر ہم سب یہ کوشش کریں کہ ہم اس سے پیچھے ہٹ جائیں یا کسی اور کے اوپر وہ ذمہ داریاں یا مشکل فیصلے ڈال دیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی ایسی بات ہے تو وہ کھل کر اظہار کریں، الیکشن کمیشن سے نہیں مقتدرہ سے کریں، اگر وہ کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی بات ہے۔‘
بلاول بھٹو کے الزامات اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے جوابات اپنی جگہ لیکن سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات سے پہلے اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہ رہی ہے۔

خرم دستگیر نے اپنی ایک گفتگو میں کہا ہے کہ اگر بلاول کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا گلہ کرنا ہے تو مقتدرہ سے کریں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اردو نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بلاول بھٹو جب لیول پلئینگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں تو ان کا مخاطب الیکشن کمیشن ہوتا ہے۔ 
لیکن منگل کے روز بلاول کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے بارے میں یہ بات کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت مسلم لیگ نواز سے محاز آرائی کر کے انتخابات میں جارحانہ حکمت عملی اپنانا چاہ رہے ہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی کہا کہ انتخابات میں چودہ جماعتوں سے اتحاد ممکن نہیں ہے۔  
خورشید شاہ کا اپنی گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ موجودہ وفاقی وزیر برائے اسٹیبلشمنٹ کے مسلم لیگ نواز سے گہرے مراسم ہیں اور بیوروکریسی میں بھی اعلٰی عہدوں پر براجمان افسران نواز لیگ کے ساتھ دیرینہ کام کرتے آ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی آن دا ریکارڈ اور آف دا ریکارڈ گفتگو اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ بلاول کی لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت در حقیقت سندھ میں افسران کے تبادلوں، اور اہم عہدوں پر مسلم لیگ نواز کے فیورٹ عہدیداران کی تعیناتی ہے جس کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ وہ الیکشن میں اپنی مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے۔

شیئر: