’اگلا ایک سال بہت مشکل‘، فُل کورٹ سماعت کے دوران کیا ہوتا رہا؟
’اگلا ایک سال بہت مشکل‘، فُل کورٹ سماعت کے دوران کیا ہوتا رہا؟
پیر 18 ستمبر 2023 19:04
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ اختیارات مجھے اپنے لیے نہیں چاہییں، آپ دینا چاہیں گے تو بھی نہیں لوں گا۔‘ فوٹو: روئٹرز
اسلام آباد میں عام طور پر ستمبر کے دوسرے ہفتے میں گرمی کی شدت کم ہو کر ٹھنڈی فضا میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ موسم کی یہ تبدیلی کچھ تاخیر سے آئی۔ پیر کے روز البتہ اسلام آباد کی صبح میں ایک روایتی خنکی تھی جو کہ سردیوں کی آمد کی پہلی اطلاع دے رہی تھی۔
سپریم کورٹ کی طرف روانہ ہوا تو ڈی چوک کے ٹریفک سگنل پر رکتے ہی آسمان کی طرف نگاہ اُٹھی جہاں بادل تھے۔
سپریم کورٹ کی پارکنگ میں داخل ہوا تو گھڑی پر9:15 بج رہے تھے، لگا کہ تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ آج نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی اپنا پہلا اور اہم ترین کیس سن رہے تھے جس کی سماعت کا وقت 9:30 مقرر تھا۔ گاڑی پارک کرتے اور کورٹ روم تک پہنچتے دس، 15 منٹ لگ ہی جایا کرتے ہیں۔
ایسی سماعتوں پرسپریم کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر ایک وقت سے بہت پہلے کھچا کھچ بھر جاتا ہے اور ذرا سی تاخیرپر جگہ ملنا ممکن نہیں رہتا۔
سپریم کورٹ کا ساؤنڈ سسٹم اتنا اچھا نہیں کہ آسانی سے ہر ایک لفظ سمجھ آ جائے۔ پھر کچھ جج صاحبان مائیکروفون سے دور ہو کر اتنی آہستہ آواز میں بولتے ہیں کہ ان کو سمجھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اور نوٹس لینے کے لیے میز یا ایسی مناسب نشست بھی درکار ہوتی ہے جہاں نوٹ بک پر آسانی سے تمام کارروائی لکھی جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ واضح آواز اور بولنے والے کے چہرے کے تاثرات بھی نظر آئیں تا کہ صورتحال کا درست اندازہ ہو۔
چونکہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں صحافیوں کے لیے صرف ایک میز دو سپیکرز کے ساتھ موجود ہے لہٰذا اس تک رسائی کے لیے پہلے آئیے، پہلے پائیے کا اصول نافذ ہے۔ جو رپورٹرز تاخیر سے آتے ہیں وہ یا تو پیچھے بیٹھتے ہیں یا اسی ایک میز کے ساتھ لگ کر، کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اور کبھی کمر کے بل جھک کر جج اور وکلا صاحبان کے تبصرے نوٹ کرتے ہیں۔
خوش قسمتی سے جب عدالت پہنچا تو ویسے تو کمرہ نمبر ایک مکمل طور پر بھر چکا تھا لیکن مجھے میڈیا کے لیے مختص اکلوتی ڈیسک پر جگہ مل گئی، لیکن وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے بمشکل چیف جسٹس کا چہرہ نظر آتا تھا اور بینچ کے آدھے سے زیادہ اراکین کو دیکھ نہیں پا رہا تھا۔
لیکن جو معزز جج صاحبان نظر آ رہے تھے ان کو دیکھنے کے لیے بھی کافی انتظار کرنا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے اس مقدمے کی سماعت اپنے مقررہ وقت 9:30 کی بجائے دو گھنٹے سے زائد تاخیر سے 11:40 پر شروع ہوئی۔
مقدمے کی کارروائی اس لیے بھی اہم تھی کیونکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے منسوب یہ بات رپورٹ ہو چکی تھی کہ جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک سپریم کورٹ کا کوئی بینچ نہیں بن سکتا۔
لہٰذا کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگ بے تاب تھے کہ اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہو اور وہ جان سکیں کہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے بینچ کیسے بنیں گے اور سو موٹو لینے کا اختیار کیسے استعمال ہو گا۔
پیر کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ایک اور حکم نامے کہ اس کو پاکستان ٹیلی وژن پر پوری قوم کو براہ راست دکھائے، نے مزید اہم بنا دیا تھا۔
لیکن 9:30 کے بعد جج صاحبان کی آمد میں جوں جوں تاخیر ہو رہی تھی، کمرہ عدالت میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ ابھی تک یہاں کوئی ٹی وی کیمرہ نہیں لگا تھا اور کچھ لوگ جن میں صحافی بھی شامل تھے کہہ رہے تھے کہ مقدمے کی براہ راست کوریج تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔
سپریم کورٹ کو باقاعدگی سے کور کرنے والے کچھ صحافیوں کے مطابق مقدمے کی سماعت میں اس لیے بھی تاخیر ہو رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کا اجلاس ہو رہا تھا اور اس میں کسی ایک پہلو پر اتفاق رائے نہیں ہو رہا تھا۔ انہی میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ مقدمے کی براہ راست نشریات پر بھی کچھ حلقوں کو تحفظات ہیں اور یہ بھی سماعت کے آغاز میں تاخیر کی ایک وجہ ہے۔
اس دوران وکلا اور صحافی مختلف ٹولیاں بنا کر آپس میں گپ شپ کرتے رہے اور جانے اور آنے والے چیف جسٹس کے بارے میں تبصروں میں مصروف رہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے پائے گیے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے لوگوں نے کافی زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں لیکن وہ اسی نظام کا حصہ رہے ہیں اور اسی میں آگے بڑھتے ہوئے چیف جسٹس بنے ہیں لہٰذا ان کے لیے سب کچھ بدلنا آسان نہیں ہو گا۔
اس دوران بہت سے لوگ چٹکلے چھوڑتے بھی پائے گیے۔ کسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی براہ راست نشریات پی ٹی وی سپورٹس پر بھی دکھائی جائیں گی اور کسی نے دوستوں کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب کو میسیج کریں کہ اب کمرہ عدالت میں آ جائیں، مزید انتظار نہیں ہوتا۔
خیر 10:45 پر پی ٹی وی کی ٹیم کمرہ عدالت میں داخل ہوئی اور مختلف جگہوں پر پانچ کیمرے نصب کر دیے۔ اس کے تقریبا ایک گھنٹہ بعد 11:40 پر جج صاحبان آئے اور قاضی فائز عیسٰی تعظیم کے انداز میں سر جھکانے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے انہیں خوش آمدید کہا اور اس کے ساتھ دلائل کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تاخیر سے آنے پر معذرت کی اور بتایا کہ آج سے سپریم کورٹ کی کاروائی لائیو دکھانے کے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
سماعت کے دوران ایکٹ کو چیلنج کرنے والے پٹیشنرز میں پہلے خواجہ طارق رحیم اور پھر امتیاز صدیقی نے دلائل دیے۔ اس موقع پر ججز کی طرف سے بار بار وکلا سے سوالات کیے گیے لیکن ساتھ ہی چیف جسٹس وکلا کو مخاطب کر کے کہتے کہ آپ سوال سن کر نوٹ کر لیں اور ان کے جوابات ابھی مت دیں،بعد میں آرام سے تحریری شکل میں دے دیں، ’کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کی زندگی مشکل ہو بلکہ ہم آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتے ہیں۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بار بار دہرایا کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے ان کو تو طاقت مل جائے لیکن ملک کو نقصان ہو۔ وہ یہ بھی بار بار پوچھتے رہے کہ اس قانون کے پاس ہونے سے کون سے اختیارات ختم ہو جائیں گے؟
ایک موقع پر انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’کئی قانون ہو سکتا ہے خود مجھے ذاتی طور پر پسند نہ ہوں لیکن میں نے حلف اٹھایا ہے کہ میں آئین اور قانون کا پابند ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ اختیارات مجھے اپنے لیے نہیں چاہییں، آپ دینا چاہیں گے تو بھی نہیں لوں گا۔‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے متعدد بار مارشل لا کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مارشل لا سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا پابند نہیں ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے ’یا تو ہم ریفرنڈم کروا لیں جیسے کہ ہر ڈکٹیٹر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، یہاں پول کروا لیں کہ کون اس ایکٹ کے حق میں ہے اور کون مخالف؟‘
دو وقفوں سے تقریبا سات گھنٹے جاری رہنے والی سماعت کی وجہ سے اس کی کوریج کرنے والے کئی صحافی تھکاوٹ کا شکار ہو گئے اور کئی کھانا نہ کھا سکنے کی وجہ سے بھوک کی شکایت بھی کرتے رہے۔
سماعت کی طوالت دیکھتے ہوئے ایک صحافی نے تبصرہ کیا کہ ’اگلا ایک سال ہمارے لیے بہت مشکل آنے والا ہے۔‘
تقریبا سوا پانچ بجے سماعت میں ایک مرتبہ پھر وقفہ کیا گیا تو لگا کہ اب یہ رات تاخیر تک جاری رہے گی کیونکہ سپریم کورٹ کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے پہلے اس مقدمے کا فیصلہ ہونا ضروری ہے۔
تاہم اس وقفے کے خاتمے کے بعد جب عدالت دوبارہ لگی تو اس مرتبہ چیف جسٹس ایک درمیانے رستے کے ساتھ آئے اور انہوں نے سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے بینچوں کی تشکیل کا عمل سینیئر ججز سردار طارق مسعود اور اعجاز الحسن کی مشاورت سے انجام دینے کا اعلان کیا۔