Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باغیوں کا علاقہ ’چمبل‘ جہاں اب سیاح ڈاکوؤں کا روپ دھارتے ہیں

ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد چمبل کا علاقہ باغی راجپوتوں کی جائے پناہ بن گیا تھا۔ (فوٹو: وکی میڈیا)
آپ میں سے بہت سے لوگوں نے چمبل کے ڈاکوؤں کے بارے میں سنا ہوگا اور ان کے دہشت انگیز کارناموں سے بھی تھوڑی واقفیت رکھتے ہوں گے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ چمبل کیا ہے اور اس کی بھی اپنی کوئی کہانی ہے۔
چمبل کے نام سے پھولن دیوی، پان سنگھ تومڑ اور ڈاکو مان سنگھ جیسے نام جڑے ہوئے ہیں۔ پھولن دیوی سماج کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ڈاکو بنتی ہیں اور ایک زمانے تک خوف و دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اور پھر بعد میں سیاست میں آتی ہیں اور رکن پارلیمان بنتی ہیں۔
ان پر معروف فلم بینڈت کوئن بنی ہے جو اپنے زمانے میں کافی مقبول ہوئی تھی اور اداکارہ سیمار بسواس نے پھولن دیوی کا کردار ادا کیا تھا۔
اسی طرح پان سنگھ تومڑ پولیس میں ہوتے ہیں جو سٹیپل چیز ریس کی کئی نیشنل چیمپیئنشپ جیتنے کے بعد ڈاکو بننے پر مجبور ہوئے تھے۔
ان پر بھی فلم بن چکی ہے اور ان کا کردار معروف اداکار عرفان خان نے ادا کیا تھا اس فلم کو کئی ایوارڈز بھی ملے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے خطرناک ڈاکو مان سنگھ کا نام آتا ہے جن پر ایک ہزار سے زیادہ ڈاکے ڈالنے یا ڈیڑھ سو سے زیادہ قتل کے الزامات لگائے گئے جن میں دو درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں کا قتل شامل ہے۔
بہر حال بعد میں گورکھا فوجیوں نے گولی مار کر ان کا قصہ تمام کر دیا تھا۔
ڈاکو اور چمبل میں انڈیا اور برصغیر کے لوگوں کی کافی دلچسپی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پر فلم ’شعلے‘ سمیت متعدد کامیاب اور بلاک باسٹر فلمیں بن چکی ہیں۔ بہر حال یہ علاقہ اپنے آپ میں پراسراریت لیے ہوئے ہے۔ آئیے اس کے بارے میں جانتے ہیں۔
چمبل کی سیر کرنے والی صحافی سواتی لکھتی ہیں کہ 'چمبل کا نام ہی ایک ایسی سرزمین کی تصویر کشی کرتا ہے جو کسی کے قابو سے باہر ہو، جس کی تسخیر نہ کی گئی ہو اور جو اپنے اندر سحر انگیز طاقت رکھتی ہو۔‘
چمبل کا علاقہ جنوب مشرقی راجستھان اور جنوب مغربی اترپردیش اور شمالی مدھیہ پردیش کے علاقے پر پھیلا ہوا ہزاروں مربع کلومیٹر پر محیط تہذیبی اور جغرافیائی علاقہ ہے۔ یہ درائے چمبل اور جمنا دریا کے علاقے میں پھیلا ہوا دشوار گزار علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں پانچ لاکھ ہیکٹر کی خراب اور نا ہموار زمین ہے جس پر کاشت کاری تقریبا ناممکن ہے۔
صاحب نظر کے لیے متنوع اور منفرد ماحولیاتی نظام کے ساتھ چمبل کی گھاٹی میں بہت کچھ دیکھنے کے لیے ہے۔ بھرپور تاریخ اور ورثے کے ساتھ وادی چمبل کے پاس اپنے دلکش مناظر، مختلف قسم کی جنگلی حیات، دیہی ماحول، غیر آلودہ فطرت، دلفریب کھنڈرات اور بہت ساری داستانیں ہیں۔

چمبل دریا کی کہانی

چمبل دریا کی تخلیق یا معرض وجود میں آنے کی اپنی ایک دلچسپ داستان ہے۔ اسے اکثر شراپت یعنی ملعون دریا کہا گیا ہے کیونکہ ہندو اساطیر کے مطابق رنتی دیو نے ہزاروں جانوروں کو قربان کیا تھا اور پنڈتوں کی دعوت کی تھی۔

چمبل دریا کی تخلیق یا معرض وجود میں آنے کی اپنی ایک دلچسپ داستان ہے۔ (فوٹو: وکی میڈیا)

انھوں نے اتنے جانور ذبح کیے تھے کہ ان جانوروں کے خون سے یہ دریا بہہ نکلا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس دریا کو چرماوتی ندی کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس کا معروف رزمیہ مہابھارت سے بھی تعلق ہے۔
رزمیہ کے مطابق مہابھارت میں کورووں اور پانڈووں کے درمیان پاسے ڈالنے کا کھیل اسی دریا کے کنارے کھیلا گیا تھا اور اس میں اس کا ذکر چرماوتی کے نام سے ملتا ہے۔
جب پانسے کے کھیل کے نتیجے میں دروپدی کی بے عزتی ہوتی ہے تو وہ اس دریا پر لعنت بھیجتی ہیں جو اس ہولناک واقعے کی گواہ تھی۔ ان کی بددعا تھی کہ جو کوئی بھی اس دریا کا پانی پیے گا وہ انتقام کی پیاس سے بھر جائے گا جو کبھی نہیں بجھے گی۔
بہر حال دروپدی کی لعنت کے اس افسانے نے لوگوں کو طویل عرصے تک اس دریا یہاں تک کہ اس علاقے سے دور رکھا اور یہ بیابان جنگل اور دشوار گزار علاقہ بنا رہا۔
یہ دریا پہلے دریائے جمنا میں ملتا ہے جو دہلی اور آگے سے بہتا ہوا آلہ آباد (اب پریاگ راج) میں ہندوؤں کے مقدس دریا گنگا میں مل جاتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کے بعد یہ علاقہ باغی راجپوتوں کی جائے پناہ بن گیا تھا جوکہ شاہی فوجیوں سے چھپ کر رہتے یا گاہے بگاہے ان سے ٹکر لیتے۔
سلطنت اور مغل دور کی تاریخوں میں یہ ملتا ہے کہ وہ ان کو کچل کر لوٹتے بھی نہیں تھے کہ اس علاقے میں علم بغاوت پھر سے بلند ہو جاتا تھا۔
جب انگریزوں کا ہندوستان پر تسلط ہوا تو انھوں نے اس علاقے اور باقی جگہوں پر ٹھگی اور ڈکیتی جیسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک مخصوص محکمہ قائم کیا لیکن پھر 1857 کی بغاوت کی ناکامی کے بعد باغی سپاہیوں کے روپ میں وہاں ڈکیتوں کے گینگ پلنے بڑھنے لگے اور برٹش حکومت کے ہندوستان چھوڑنے تک بھی ان پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا۔

رواں سال چمبل سفاری کا آغاز ہوا ہے جس کے تحت سیاحوں کو اس دور افتادہ علاقے کی سیر کرائی جاتی ہے۔ (فوٹو: وکی میڈیا)

آزادی کے بعد بھی وہاں ایسے گروہوں کا ڈیرا اور تسلط رہا جو سماجی یا سیاسی تعصبات کا شکار ہوئے تھے اور انھوں نے ہتھیار اٹھا لیا تھا۔
پھر بیسویں صدی کے آخر میں ان گروہوں کی بحالی کے کئی پروگرام سامنے آئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پے در پے کوششوں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کے نتیجے میں 1970 کی دہائی میں سابق ڈاکوؤں نے بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈال دیے۔
تاہم وہاں اس کے بعد بھی باغی جمع ہوتے رہے اور یہ یاد دلاتے رہے کہ یہ ان کے لیے کسی پناہ گاہ سے کم نہیں۔
رواں سال چمبل سفاری کا آغاز ہوا ہے جس کے تحت سیاحوں کو اس دور افتادہ اور دوررس مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے جہاں ڈاکوؤں کا ایک سلسلہ زمانہ قدیم سے اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے تھا۔
سات مئی 2023 کو یہ سفاری شروع کی گئی جس میں سیاحوں کے لیے جہاں اس علاقے کی خوبصورتی اور دلکشی قابل دید ہو سکتی ہے وہیں وہ ان چيزوں کا تجربہ بھی کر سکیں گے جس کے لیے وہ علاقہ اب تک جانا جاتا ہے۔
سفاری کے لیے لائن بکنگ کرانی ہوگی اور یہ چمبل سفاری نام کے پورٹل کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے پندرہ بیس لوگوں کے گروپ کو ایک ساتھ رجسٹر کرنا ہوگا اور پھر اپنی پسند کی تاریخ پر خدمات فراہم کرنے والے سے رجوع کرنا ہوگا۔
مقامی میڈیا کے حساب سے پہلے دن اس سفاری کے لیے 100 سے زیادہ سیاح پہنچے اور انھوں نے اس سیر کا لطف اٹھایا کیونکہ ان کے لیے وہاں ایسی ہی چیزیں فراہم کی گئی ہیں۔

سیاح کے لیے ڈاکو بننے کا تجربہ

چمبل سفاری میں جانے والوں کو ڈاکوؤں کا لباس اور انھیں نقلی بندوقیں دی جائیں گی اور اس کے ساتھ وہ فوٹو شیشن بھی کر سکتے ہیں۔
انھیں وہاں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں اور ان کے اہل خانہ سے ان کی زبانی ان کے قصے سننے کا موقع ملے گا جو اپنے آپ میں ایک نادر موقع ہوگا۔
چمبل میں اب جگہ جگہ لاج اور ریستوراں قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ایک زمانہ وہ تھا جب وہاں کی زندگی انتہائی مشکل تھی اور ڈاکو کی زندگی اس سے بھی زیادہ مشکل ہوا کرتی تھی۔
ہندو روزنامہ بھاسکر کے مطابق ڈاکو ملکھان سنگھ کے داہنے ہاتھ کہے جانے والے مننا سنگھ نے بتایا کہ کس طرح ایک ٹیچر کا بیٹا ڈاکو بنا اور اس نے کن مشکلات کا سامنا کیا۔
ان کے مطابق بیابان کی زندگی نہ تو پرکشش ہے اور نہ ہی آسان ہے۔ مننا سنگھ کے مطابق وہ دن میں صرف ایک بار کھانا پکاتے اور رات میں اپنی حفاظت کے لیے بیڑی تک نہیں جلاتے تھے۔ وہ نہانے دھونے کا کام رات میں کرتے تھے یا پھر اپنی جگہ بدلنے کا کام بھی رات میں ہی کرتے تھے۔ اگر وہ ان پر سختی سے عمل پیرا نہیں ہوتے تو ممکنہ طور پر پولیس کی گولی کا شکار ہوسکتے تھے۔
وہ پولیس جیسی وردیاں پہنتے تھے تاکہ اس علاقے کے گاؤں میں رہنے والے ان کی پولیس کو مخبری نہ کر دیں۔ وہ ایک اصول اور ضابطے کے تحت مختلف علاقوں میں رہتے اور ان کے گروہوں کے  علاقے بٹے ہوئے تھے یہاں تک کہ ان کے گروہ کا کوڈ بھی ہوتا تھا جس سے ان کی شناخت ہوتی تھی۔
ناشتے میں خشک میوہ جات کھاتے تھے جبکہ عام طور پر روٹی بناتے تھے۔ چونکہ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ روٹی بنانے کے لیے توا اپنے بیگ میں رکھتے تھے۔
ان کے پاس سبزی بنانے کے لیے بھگونا بھی ہوتا تھا جس میں دس لوگوں کے لیے سالن بن جاتے تھے اور کبھی کبھی وہ چاول بھی بناتے تھے۔ ان کے پاس ایک کٹوری ہوتی تھی جس میں سب اپنے اپنے لیے آٹا گوندھتے تھے۔ 24 گھنٹے میں وہ صرف ایک بار کھانا کھاتے تھے۔
مننا سنگھ بتاتے ہیں کہ ہر ڈاکو کے بستے میں راشن سے زیادہ گولیاں ہوتی تھیں، جو روٹی بچ جاتی اسے بیگ میں رکھ لیتے، راشن کسی مخبر کی مدد سے حاصل کرتے تھے۔
وہ راشن کی 100 گرام کی پوٹلی بناتے اور آپس میں تقسیم کر لیتے اور ہرایک ڈاکو کی پیٹھ پر ان کا ہفتوں کا راشن ہوا کرتا تھا۔

چمبل میں اب جگہ جگہ لاج اور ریستوراں قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ایک زمانہ وہ تھا جب وہاں کی زندگی انتہائی مشکل تھی (فوٹو: وکی میڈیا)

ان کا کہنا ہے کہ کبھی اگر ان کے کسی ساتھی کو گولی لگ جاتی تو ڈاکٹر بلا لیتے تھے۔ وہ سب جنگلوں میں سوتے تھے اور ان کے اوپر سے سانپ بھی گزر جاتے تھے لیکن ان کے مطابق کبھی سانپ نے کسی کو کاٹا نہیں۔ اگر وہ بیمار ہوتے تو دیسی دوا سے اپنا علاج کرتے تھے۔
ان کا یہ اصول تھا کہ کسی گاؤں میں نہیں ٹھہرنا ہے۔ کسی بہن بیٹی کے زیور نہیں اتارنے ہیں۔ لوگوں کی حیثیت کے مطابق ہی ان سے تاوان وصول کرتے تھے۔ جسے اغوا کرتے تھے اسے نہیں مارتے تھے بلکہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور خاطر کرتے تھے۔ وہ تاوان 20 ہزار سے 50 ہزار روپے تک وصول کرتے تھے۔
کسی خاتون کی عزت سے کھیلنے کا نتیجہ موت تھی یعنی گروہ کے ایسے شخص کو خود ہی گروہ والے گولی مار دیتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ گاؤں والے ان کے خلاف نہیں جاتے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اگر گاؤں والوں کی انھیں مدد نہیں ہوتی تو یہ گروہ ان علاقوں پر اتنے زمانے تک راج نہیں کر سکتے تھے۔
مننا سنگھ نے بتایا کہ ان کے وقت میں سب سے بڑا گینگ ملکھان سنگھ کا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی گینگ تھے جو شہرت رکھتے تھے اور سرگرم عمل تھے۔
ان گروہوں میں گھنشیام سنگھ، نربھے گرجر، پھولن دیوی، صوبیدار پان سنگھ تومر، بلونت سنگھ تومر اور سیما پریہار وغیرہ کے گینگ بھی بہت زیادہ سرگرم تھے اور پولیس سے ٹکر لے رہے تھے۔
مننا سنگھ بتاتے ہیں کہ 17 جون 1982 کو انھوں نے اور ان کے گینگ نے ہتھیار ڈالے تھے اور تقریبا دس سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد 1993 میں رہا ہوئے اور اس کے بعد ہی اپنے گھر لوٹ سکے۔
اس کے علاوہ چمبل بہت سارے نایاب اور کمیاب جانوروں کے علاوہ جنگلی اور حیاتیات کا مقام بھی ہے اور اسی لیے انڈین نے وہاں ان کے لیے محفوظ پناگاہیں بھی بنائی ہیں۔

شیئر: