تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کامیابی اورحصول مقاصدکے لئے نہایت ضروری ہے،اس کے بغیرکسی بھی مقصدمیں کامیابی حاصل کرنامشکل ہے
* * * * محب اللہ قاسمی ۔ نئی دہلی* * * *
رمضان کا مبارک اورمقدس مہینہ جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوںاوربرکتوںکا نزول ہوتاہے ، اس کی سب سے اہم عبادت ’’صوم ‘‘ یعنی روزہ رکھناہے ۔روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک خودکوکھانے پینے اورجماع (شہوانی خواہشات) کی تکمیل سے رکنے کوکہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں روزے کو صوم سے تعبیر کیاجس کی حقیقت یہ ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل عرب میں ’’صائم ‘‘اُس گھوڑے کوکہاجاتاتھا جسے بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کے لئے خاص قسم کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ مشکل اوقات میں زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکے رمضان میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکو بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کا حکم دے کریہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ وہ شرائع واحکام کے متحمل ہوسکیں ۔ اس لحاظ سے رمضان المبارک کو ماہ تربیت کہاجا تا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزے کے ذریعے ایک خاص چیزکی تربیت دیتاہے جسے ’’تقویٰ‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون’’تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔‘‘(البقرہ183)۔
روزہ تربیت ِ نفس کی قدیم ترین عبادت ہے جو انسان کو صبروضبط کا عادی بناتاہے کیونکہ نفس اورخواہشات پر قابو پانے کی بہتر تربیت روزوںکے ذریعہ ہوتی ہے۔ تربیت ِ زندگی کے تمام شعبوں میں کامیابی اورحصول مقاصدکے لئے نہایت ضروری ہے،اس کے بغیرکسی بھی مقصدیامشن میں کامیابی حاصل کرنامشکل ہے۔ ہر چیزکی نشونمااوراس کے ارتقاء کے لئے تربیت کی خاص ضرورت ہے۔ خواہ انسان کا علمی،عملی ،فکری لحاظ سے ذاتی نشونماہویاپھر خاندانی ،سماجی،سیاسی اورافرادسازی کے اعتبارسے معاشرتی ارتقاء ہوہرجگہ تربیت کی ضرورت ہے۔
* * * روزہ کی فرضیت * * *
2ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ روزہ ہرمقیم ،عاقل ، بالغ مسلمان مردعورت پر فرض ہے۔اللہ کا فرمان ہے: ’ ’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں (امتوں)پرفرض کیے گئے تھے۔‘‘ (البقرۃ183) اس لئے بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہِ عظیم ہے جس کی قضا پوری عمراداکرنے سے بھی پوری نہیں ہوتی۔
* * *شہرُالقرآن * * *
اللہ تعالیٰ نے اس مقدس کتاب کو مبارک ماہ میں نازل فرماکرہمیشہ کے لئے انسانوں کی ہدایت ،تربیت اوررہنمائی کے لئے ایک گائڈبک بنادیا۔قرآن اس بات کی اچھی تربیت دیتاہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوںمیںاس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور جہاں جس کام کا حکم ہے اسے کیاجائے اورجن چیزوںسے منع کیاگیاہے ،اس سے بازرہاجائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس ماہ میں اپنے بندوںکو عبادت واطاعت ،زبان وشرم گاہ کی حفاظت ، غریبوںاورحاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کی صراحت وقت کی نزاکت اورہرطرح کے فرائض وحقوق کی ادائیگی کے لئے پوری زندگی لگن اور ریاضت کی تربیت دیتاہے کہ بندہ اس ماہ کی عملی مشق سے ،آئندہ دنوں میںرضائے الٰہی کی مطابق زندگی بسرکرے اورخودکوجہنم کی آگ سے بچا کراللہ تعالیٰ کے انعام (جنت) کا مستحق بنائے۔ اس طرح وہ معنوی اعتبارسے پوری زندگی ’’صائم ‘‘ ہوتا ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ اسے دیتارہے گا۔
* * *شہرُاللہ* * *
نبی پاک کی زبانی اس ماہ کو ’’شہراللہ‘‘اور’’شہرالمواساۃ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اس ماہ میں ان تمام چیزوںکی تربیت دی جاتی ہے جس سے انسان اپنے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن کر آئندہ یک سالہ منصوبۂ حیات کی تکمیل اپنے خالق ومالک کی ہدایت کے مطابق کرسکے۔ جس طرح ایک فوجی جنرل اپنی فوج کوکسی مہم پربھیجنے یا کسی جگہ چوکسی کے لئے متعین کرتاہے ، تواس سے قبل وہ اپنے فوجیوں کوخاص مدت تک ٹریننگ دیتاہے اوران سے سخت ریاضت بھی کرواتاہے تاکہ اس کے فوجی اپنے ذمے سونپے گئے کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں چنانچہ جو اس میں جتنی دلچسپی لیتا ہے وہ اسی قدرپختہ ،تجربہ کارہوجاتاہے اوروہ فوجی ،جرنل کی نگاہ میں محبوب بن جاتاہے،ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے کا حکم نازل فرماکر اپنے بندوںکونیک کام کرنے کی ترغیب دی کہ اس میں اداکیے گئے فرض کا ثواب 70گنازیادہ اورنوافل، فرائض کے برابرہوںگے تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ عبادات کا عادی بنے اوراس کے دل میں یہ اثر پیدا ہوکہ جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے منع کرنے پر اس ماہ (روزے کی حالت )میں دسترخوان پرموجود حلال چیز کے باوجود،اُسے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، ٹھیک اسی طرح دیگرماہ میں وہ یہ عزم کرے کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔ یہ اللہ تعا لیٰ کا مہینہ ہے، لہذا جو اپنی کڑی ریاضت کے ذریعے اپنی تربیت کرے گا، وہ آئندہ دنوںمیں شیطان کے مکروفریب کا ڈٹ کرمقابلہ کرسکے گا۔یہی اس حدیث کا مطلب ہے جس میں اگلے پچھلے گناہ کی معافی کا اعلان ہے: حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کیساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواسکے (اگلے) پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کامحبوب بھی ہوگا، حدیثِ قدسی ہے: ’’ابن آدم کا ہرعمل اس کیلئے ہوتاہے سوائے روزے کے، روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوںگا،بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لئے چھوڑدیتاہے۔‘‘ (مسلم)۔
* * * شہرالمواساۃ:* * *
اس ماہ کوشہرالمواساۃ(غم خواری کا مہینہ)بھی کہاگیاہے ۔ایک مالدارصاحبِ ثروت شخص جس کے پاس ہرطرح کی نعمت وآشائش موجودہے اس کے باوجود طلوعِ فجرسے غروب آفتاب تک اس کااِن نعمتوں کوہاتھ نہ لگانااوربھوک وپیاس سے بے چین رہنا اس بات کی تربیت دیتاہے کہ ایک غریب بے بس مسکین ولاچار جس کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں اس کی ضرورت پوری کی جائے۔ اس طرح اللہ تعا لیٰ بندوں کے اندرغم خواری کی تربیت دیتاہے تاکہ لوگ اپنے مال واسباب میں ان کا حق سمجھ کر زکوٰۃ وصدقات اورخیرات کے ذریعہ ان کی مدد کرے۔
* * جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:* *
اس ماہ مبارک جس میں انسانی زندگی کی مکمل تربیت کی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے جنت کے سارے دروازے کھول دیتاہے اورجہنم کے دروازے بند کردیتاہے تاکہ اس کی پُربہارفضا میں نیک کام کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور اپنی جس نیکی سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ،خواہ عبادات کے ذریعہ یا اچھے اورنیک معاملات کے ذریعہ ،چنانچہ اس کا ایسا اثر ہوتاہے کہ ہرشخص روزے سے ہوتاہے اورنیکی کی طرف دوڑتا ہوا نظرآتاہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں میں فخر کرتاہے۔شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس مبارک ماحول کو خراب نہ کرسکے۔ اگرانسان اپنی تربیت نہ کرے تووہ درندہ صفت حیوان بن جاتاہے اورمعاشرہ ایک خوفناک جنگل کی مانندہوجاتاہے جبکہ انسان انس ومحبت کا پیکراورباہمی تعلقات کا خوگرہوتاہے اس لئے اس ماہ مبارک میں اسے اپنی ہرطرح تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کا دل بغض،بخل ،خودغرضی ،حرص وحسد،کینہ ، خودپسندی ،شہرت پسندی ،تنگ دلی اورتکبر جیسی ناپاک چیزوں سے نفرت کرنے لگے اوربہترین انسان بن کر اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن جائے جس سے قوم وملت کو فائدہ ہو،ورنہ تواس جہاں میں انسان اوربھی ہیں۔