Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سارہ انعام اور نور مقدم کے قاتلوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے: والدین

شوکت مقدم نے کہا کہ ’نور مقدم کے کیس میں ایک طویل ٹرائل چلا۔ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا۔‘ (فوٹو: این پی سی)
سارہ انعام اور نور مقدم کے والدین نے کہا ہے قاتلوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ملزمان کو سزا نہ دی گئی تو ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اتوار کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے والدین نے کہا کہ ’ملزمان کو پھانسی پر لٹکانے سے ہی معاشرے میں قانون پر اعتماد بحال ہو گا، معاشرے کو اس کیس سے پیغام جائے گا کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں ہے۔‘
نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک سال ہو گیا اور سارہ انعام درد ناک طریقے سے قتل ہو ئی، مجھے اطلاع ملی تو سارہ کے والدین کے گھر دکھ درد بانٹنے گیا، سارہ کے والدین کا دکھ ہم سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔‘
’نور مقدم کے کیس میں ایک طویل ٹرائل چلا۔ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، لیکن لوگ چاہتے تھے فری اینڈ فیئر ٹرائل ہو اچھی بات ہے فری اینڈ فیئر ٹرائل ہونا چاہیے۔عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنائی، کیس ہائی کورٹ گیا جہاں چیف جسٹس عامر فاروق نے کم وقت میں کیس کو نمٹایا۔ ہائی کورٹ نے بھی ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی۔ اب یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سپریم کورٹ سے بھی گذارش کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کو جلدی نمٹائیں اور ملزمان کو سزا دیںے سے معاشرے میں قانون پر اعتماد بحال رہے گا، ملزمان کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا تومعاشرے کو اس کیس سے پیغام جائے گا کہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں۔‘
سارہ انعام کے والد انعام الرحیم نے کہا کہ ’ملزم شاہ نواز میر نے انٹرنیٹ پر سارہ کو ڈھونڈا، شاہ نواز نے مجھے کہا کہ میں آپ کا تیسرا بیٹا ہوں۔ ہم نے یقین کیا۔ شاہ نواز نے ہماری بیٹی سے لاکھوں درہم بٹورے، پولیس کے افسران نے اس کیس پر بہت اچھے انداز میں کام کیا۔ نور مقدم کیس کے جج سارہ انعام کیس کے جج تھے انہوں نے بہت تیزی سے اس پر کام کیا۔ کیس کے گواہ دو، دو تین، تین گھنٹے عدالت میں بیٹھے رہتے تھےمگر ملزمان کا وکیل عدالت نہیں آتا تھا۔‘

شیئر: