تمام تر سہولتیں اور آسانیاں صرف اور صرف دولت مندوں کیلئے ہیں
* * عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* *
پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 سال ہونے کو ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ امیروں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ غربت کے جال میں پھنسے لوگوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی یعنی ملک میں ترقی کا پہیہ جام ہوچکا ہے ۔ بیروز گاری عام ہے۔ ملک کے ہر کونے میں بھیک مانگنے والوں کا ہجوم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ غریبوں کی زندگی میں سکون نام کی کوئی شے نہیں یا یوں کہہ لیں کہ غریبوں کے نصیب میں راحت و آرام سرے سے نابود ہوچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تکالیف و مصائب کا مجموعہ غریب کی زندگی کا دوسرا نام بن کر رہ گیاہے کیونکہ ملک میں غریبوں کیلئے انصاف کا حصول بھی تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب کو ایک ایسے طبقے کا فرد سمجھا جاتاہے جسے انسانوں میں شمار نہیں کیا جاتا ،اس کی کوئی فریاد نہیں سنی جاتی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشی طور پر تو پہلے ہی پیچھے ہے لیکن تمام جرائم کا منبع بھی اسے ہی ٹھہرا یا جاتا ہے۔
کسی غریب سے کوئی چھوٹا موٹا جرم سرزد ہوجائے تواسے اتنا بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سزا سے کسی طور بچ نہیںپاتا۔ انہیں فوری گرفتار کرکے پہلے تو تھانے میں خوب تشدد کیا جاتا ہے اور پھر ناکردہ جرم قبول کرواکر کچہری میں پیش کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً عدالت بھی سرسری سماعت کے فوری بعد سزا سناکر غریب کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کا فرمان جاری کردیتی ہے۔ عام طور پرغریب کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ اسے کس جرم کی سزا دی جاری ہے۔ دوسری طرف کوئی دولت مندیا اثر ورسوخ والا شخص کوئی جرم کرتا ہے تو اول تو اس پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جاتا کیونکہ پولیس سے لے کر بڑوں بڑوں تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ دولت کو پانی کی طرح بہا کر وہ خود کو محفوظ و مامون رکھتا ہے۔
دولت کے بل بوتے پر اسے درجنوں ایسے " عینی شاہد" مل جاتے ہیں جو اس کی بے گناہی کا حلفاً اظہار کرتے ہیں یعنی پیسے کے زور پر سب کچھ ہوجاتا ہے۔ پیسے کو سب سے طاقتوربنا دیا گیا ہے۔ جسے دیکھو وہ دولت مند بننا چاہتا ہے،اسی لئے رات دن پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حلال وحرام کا فرق مٹنے لگا ہے ۔ رشوت خوری، کرپشن، ظلم وزیادتی اور حق تلفی عام بات ہوکر رہ گئی ہے۔ نیچے سے اوپر تک بے انصافی اور بے ایمانی کی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتاہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟خودداری اور عزت نفس نام کی شے اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم نے اپنے ملک کا کیا حشر کردیا ہے۔
اگر کوئی دولت مند ، صاحب حیثیت کسی غریب کی کچھ مدد بھی کرتا ہے تو ایسا احسان جتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اہلیت رکھتا ہے اسی لئے غریبوں کی مدد کررہا ہے۔ الغرض غریب بے چارے کی زندگی مصائب و الم سے بھرتی جارہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ترستے ان غریبوں کو تعلیم، صحت اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں باعزت مقام تک میسر نہیں۔ دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میںد کھایاگیا ہے کہ پاکستان میں غریب بے چارے سے ذرا بھی کوئی خطا ہوجائے تو اس کو اپنی غلطی کی بہت بڑی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ تصویر میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی دے رہی ہے کہ شہر لاہور میں لوگ چلچلاتی دھوپ میں کھلے آسمان تلے سخت گرمی کے عالم میں قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذرا سی غلطی یا کوتاہی کی پاداش میں قانون نافد کرنے والے ادارے کی جانب سے چالان کی مد میں عائد کئے جانے والے جرمانے کی رقم کو قومی خزانے میں جمع کرانے کیلئے قطار میں کھڑے ہیں۔
غریب اور متوسط طبقات کے لوگ ہمیشہ مشکلات و مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ ہر کام کیلئے انہیں یا تو اپنے اعلیٰ افسران کی خوشامد کرنی پڑتی ہے یا پھر لمبی لمبی قطاروں میں اسی طرح کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظا ر کرنا پڑتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نصیب میں کوئی سکھ چین نہیں، شاید انہیں زندگی بھر دکھ ہی اٹھانا ہے۔ سچ یہ ہے کہ غریب کو بھی جینے کا حق ہے۔ وہ ان لوگوں سے کہیں زیادہ محنت مشقت کرتے ہیں جو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ان کے خون پسینے کی کمائی ہضم کر جاتے ہیں۔ کہیں بھی جائیں، کسی بھی جگہ اگر آپ کو لمبی قطاریں نظر آئیں تو اس میں صرف اور صرف غریب لوگ ہی نظر آئیں گے جو اسی طرح اپنی باری کا انتظار کررہے ہونگے۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گاڑیوں میں پٹرول بھروانے کیلئے بھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ گیس ہو یا بجلی کے بلوں کی ادائیگی، پنشن لینی ہو یا کوئی اور مجبوری ہو، سب کامو ں کیلئے غریبوں کو طویل قطاروں میں ہی کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ آخر ہمارے معاشرے میں غریبوں کیلئے ہر چیز اتنی مشکل کیوں ہے کہ زندگی انسان کو بوجھ محسو س ہونے لگتی ہے۔ نظام کو سب کیلئے آسان اور سہیل بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی تاکہ قیمتی وقت کی بچت ہوسکے۔ سائنس بہت زیادہ ترقی کرچکی، ٹیکنالوجی کا دور ہے، تمام تر بلوں کی ادائیگیاں انٹرنیٹ کے ذریعے کی جارہی ہیں مگر اس سب کے باوجود ہمارے غریب شہریوں کو کوئی سہولت میسر نہیں۔ جیسا آج سے 30 ، 40 برس پہلے تھا ،وہی کچھ اب بھی نظر آرہا ہے۔
ملک میں اکثریت غریبوں کی ہے جن میں سے بہت سے خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں تو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، پھر وہ کہاں سے انٹرنیٹ استعمال کریں گے، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کہاں سے خریدیں گے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ بینکو ںکے علاوہ مختلف مقامات پرٹیکسوں، جرمانوں اور بلوں کی ادائیگی کیلئے خود کار نظام متعارف کرایا جائے تاکہ غریبوں کو طویل قطاروں میں کھڑا نہ ہونا پڑے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ غریبوں کو شہری کہلانے کا حق ہی نہیں کیونکہ تمام تر سہولتیں اور آسانیاں صرف اور صرف دولت مندوں کیلئے ہیں۔ ہم اپنے ملک کو فلاحی ریاست کیوں نہیں بناسکتے؟ کس چیز کی کمی ہے ہمارے ملک میں۔ اللہ تعالیٰ نے چار موسم عطا فرمائے ، جن سے ہم لطف اندور ہوسکتے ہیں۔ دریا ؤں کا جال بچھا ہے۔ ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال وطن ہے ۔ سبزیوں اور پھلوں کی وافر مقدار ہر سال میسر آتی ہے۔ اناج بے حساب پیدا ہوتا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے ملک میں نہیں۔ بس سبب یہ ہے کہ ان وسائل کا درست استعمال نہیں ہورہا، ان کی دیکھ بھال صحیح طرح نہیں کی جارہی ۔ ملک پر مسلط افراد اپنی تجوریاں بھرتے رہے، غریبوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ملک کو ترقی دینے کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ اسی لئے آج ہمارا یہ حال ہے۔ ہمارا ملک مستحکم ہوتا تو شہری دوسروں ملکوں میں روزگار تلاش کرنے نہ نکلتے ۔ اب بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ملکی حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ،ضرورت بس مخلص ہونے کی ہے، اپنے لئے ، اپنے ملک کیلئے۔