پاکستان میں اردوادب کا مستقبل بہت روشن ہے ،نہ تاریک ، ڈاکٹر تحسین فراقی
ہمارے ہاں ہند سے ہزار درجے بہتر شعر لکھا جارہا ہے، اردو نیوز کو انٹرویو
* * *جاوید اقبال۔ریاض* * *
ریختہ نے دہلی اور لکھنؤ کے کوچوں اور بالاخانوں میں جنم تو لیا لیکن عنفوان شباب تک پہنچتے پہنچتے اس کے قدم پنجاب کی طرف اُٹھ آئے۔ ترقی پسند تحریک او راسکے فوراً بعد کے برسوں میں اس زبان کو ایسے ایسے لکھنے والے ملے جن کی تحریریں عالمی ادب کے شہ پاروں سے ٹکر لیتی تھیں۔ اشتراکیت کا اٹھتا طوفان اور برصغیر کی تقسیم پر انسانی لہو سے کھیلی جانے والی ہولی دو ایسے عناصر تھے جن کے زیر اثر تخلیق کئے جانے والے ادب نے یونانی المیوں کی یاد تازہ کردی لیکن تابکے؟ 20ویں صدی کے اواخر تک دونوں موضوعات مضمحل ہوچکے تھے۔ صورتحال نئے موضوعات کی طلب میں تھی۔مجلس ترقی ادب کے لاہور کے صدر مقام میں ناظم کے دفتر میں 4تصاویر آویزاں ہیں۔
سید امتیاز علی تاج، پروفیسر حمید احمد خان، شہزاد احمد اور احمد ندیم قاسمی، دنیا کی چوتھی بڑی زبان کو زوال آشنا ہونے سے بچانے کیلئے بہت کچھ کر گئے۔ آج اس دفتر میں کتابوں کے انبار میں ڈاکٹر تحسین فراقی تشریف رکھتے ہیں۔ عمر عزیز کا بیشتر حصہ جامعہ پنجاب میں اور 3برس دانشگاہ تہران میں اردو چیئر پر تدریس میں گزار چکے ہیں۔ 35سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ محقق ، شاعر، نقا د اور نثر نگار ہیں۔ انتہائی دلکش انداز بیان رکھتے ہیں:
’’ وہ کہیں اور سناکرے کوئی‘‘
* * ان سے گفتگو کے چند لمحات میسر آئے۔ تشنگی رہی! جو کچھ بھی حاصل ہوسکا قارئین اردو نیوز کی نذر:
۰ کسی بھی زبان کے زندہ رہنے کیلئے اسکی تحریر کا زندہ رہنا ایک لازمی امر ہے۔ ایک رحجان یہ پرورش پا رہا ہے کہ لوگ اب اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انجمن ترقی ادب فروغ اردو کے لئے کیا کررہی ہے؟
٭ دیکھئے بات یہ ہے کہ رومن رسم الخط میںاگر اردو لکھی جاتی ہے تو اس میں ایسی حماقتیں ہونگی جن کا شاید اس رسم الخط کی حمایت کرنے والوں کو اندازہ بھی نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ جن لوگوں نے یہ لاطینی رسم الخط اپنایا ہے وہ اپنی تہذیب سے کٹ گئے ہیں۔ اس کی بڑی مثال ترکی ہے یا پھر وسطی ایشیا کی ریاستیں دیکھ لیں جنہیں عربی سے کاٹا گیا تو الحمد للہ، ہم تو صدیوں سے اپنے رسم الخط میں کتابیں چھاپ رہے ہیں اور اردو کی حد تک جو ادارے اہم کام کررہے ہیں ان میں ہمارا ادارہ بھی شامل ہے۔ اب تک ہم نے کوئی 450کے لگ بھگ کتب چھاپی ہیں، ان میں تراجم ہیں، طبع زاد ادب و تنقید ہے اورکلاسیکی ادب بھی ہے۔
۰ اپنے ادارے مجلس ترقیٔ ادب کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟
٭ جب یہ ادارہ 1950ء میں قائم کیا گیا تھا تو اسکا نام مجلسِ ترجمہ تھا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقتوں کے لوگ ہم سے زیادہ درد مند تھے اور چاہتے تھے کہ اس ملک کی تعمیر بھی ہو، اسکی اپنی ایک تہذیب ہو، اسکا اپنا تشخص ہو، چونکہ تشخص کو بنانے میں زبان کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے لہٰذا طے یہ کیا گیا کہ جس طرح ایک زمانے میں دارالترجمہ ،حیدرآباد نے اور اس سے پہلے دلّی کالج نے اردو کی خدمت کی تھی اسی طرح ایک ایسا ادارہ وجود میں آئے جو نئے علوم خاص طور پر علومِ انسانی کو اردو میں ڈھالے۔ میں یہ بات اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانے میں انگریزی ، فارسی اور عربی سے اردو میں جو تراجم ہوئے انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے۔ مثلاً Golden Bow کا ترجمہ اصلی تحریر سے اتنا قریب ہے کہ مترجم نے گویا ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ اس طرح ٹائن بی کی The Study Of History کا ترجمہ ہوا۔ اس وقت تک اس کے 7والیوم شائع ہوئے تھے۔ بعد میں تو غالباً11والیوم ہوئے۔ اسکا خلاصہ شائع ہواتھا جو تھاجو سمر ویل نے کیا تھا اسکا دیباچہ ٹائن بی نے خود دیکھا تھا او رکہا تھا کہ وہ ان کے افکار کا بہترین خلاصہ تھا۔ اسکا ترجمہ مولانا غلام رسول مہر نے کیا تھا جو فارسی، اردو، عربی اور انگریزی کے بہت بڑے عالم تھے۔ انکی کتاب ہمارے ہاں بہت مقبول ہے اگرچہ نہایت برے کاغذ پر شائع ہوئی تھی۔ ہم نے علوم انسانی، معاشیات ، تاریخ پر کتب چھاپیں، تراجم ہم نے کرائے۔ کلاسیکی ادب کو ہم نے محفوظ کیا چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ 1950ء سے لیکر ہمارا یہ جو 65، 66برس کا سفر ہے اس میں مجلسِ ترقیٔ ادب نے بہت کام کیا ہے۔ ہماری بعض کتابیں تو انتہائی مقبول ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ ادب اردو کے زیر عنوان 4حصوں پر مشتمل تصنیف اساتذہ اور طلباء میں بہت پسند کی جاتی ہے اگرچہ جمیل جالبی اس کاوش کے تیسرے ا ور چوتھے حصے میں وہ معیار قائم نہیں رکھ سکے جو ان کے پہلے 2حصوں میں موجود ہے۔ میرے خیال میں انجمن ترقی اردو نے جب کام کیا اور جیسا اب بھی کررہی ہے، اسی طرح کی مجلس ترقی ادب کی خدمات بھی رہی ہیں۔ ہم نے اساتذہ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کو مستند ادب فراہم کیا ہے۔
۰ آپ کی کتب کی طباعت کا معیار کیا ہے؟ کیا ابھی تک ٹائپ شدہ مواد کی طباعت ہی جاری ہے؟
٭ نہیں اب ہم ٹائپ کی بجائے کمپیوٹر استعمال کررہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ 2،3برسوں میں کوشش کی ہے کہ طباعت دیدہ زیب ہو۔ کمپوزنگ بہتر ہو خط نستعلیق میں ہو۔ اس سلسلے میں کچھ مسائل بھی ہیں۔ اعلیٰ پائے کے پروف ریڈر نہیں ملتے۔ انکا فارسی اور عربی کا بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا۔ جو کتب شائع ہوتی ہیں ان میں اغلاط بہت ہوتی ہیں۔ جو کام مجھے اصولاً کرنا چاہئے اس سے ہٹ کر بھی مجھے کچھ کام کرنے پڑتے ہیں۔ ہماری مدد کیلئے کوئی شخص نہیں اور جو مدد دے سکتے ہیں ان کے پاس فرصت نہیں۔
۰ آپ نے فرمایا ہے کہ کچھ تحقیقی کام بھی آپ کے زیر نگرانی ہوا ہے۔ کیا علامہ اقبال اور غالب پر بھی آپ نے کچھ شائع کیا ہے ؟ آپ کا تو دونوں شعراء پر وسیع مطالعہ ہے؟
٭ اقبال پر ہم نے کچھ کتب شائع کی ہیں۔ 1977ء سالِ اقبال تھا۔ اس زمانے میں ادارہ ثقافت اسلامیہ، بزم اقبال، اقبال اکیڈمی اور ہمارے ادارے نے اجلاس منعقد کئے تھے اور فیصلہ ہوا تھا کہ اقبال پر کتب چھاپی جائیں۔
۰ زبان اور ثقافت کا آپس میں کتنا گہرا رشتہ ہوتا ہے اور ثقافت کو پروان چڑھانے میں زبان کتنا بڑا کردارادا کرتی ہے؟
٭ ان دونوں عناصر میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ ہمیں اجتماعی کوشش کرنا ہوگی کہ اپنی زبان کو فروغ دیں۔ قومیں زبان سے بنتی ہیں۔ قومیں اپنی تہذیب سے بنتی ہیں۔ ہر قوم کا اپنا ایک تشخص ہوتا ہے۔ مجھے اسکاذاتی تجربہ ہے۔ 1997ء میں اقبال فاؤنڈیشن یورپ کے زیر اہتمام ایک کانفرنس تھی۔ این میری شمل اس ادارے کی سربراہ تھیں۔ بیلجیئم کے تاریخی شہر گینٹ میں اسکا انعقاد ہونا تھا۔ میں نے وہاں اقبال پر اپنا تحقیقی مقالہ پڑھا ۔ اب کانفرنس تو 2دن میں ختم ہوگئی۔ ہمارا شینگن کا ویزا تھا اور وافر مقدار میں وقت دستیاب تھا چنانچہ فیصلہ ہوا کہ کچھ دوسرے ممالک دیکھ لئے جائیں۔ ہم نے ہالینڈ ، جرمنی اور فرانس دیکھ ڈالے۔ میرے ساتھ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تھے ۔ ہم فرانس میں تھے تو ایک دن طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ میرے ہمراہ نہ جاسکے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ’’ ناٹرے ڈیم ‘‘کا گرجا دیکھا جائے ۔اب اتفاق سے ایسا ہوا کہ جہاں اترنا تھا میٹرو سے وہاں سے ایک اسٹیشن پہلے میں اتر گیا۔ پیدل چل پڑا اور راہگیروں سے راستہ پوچھنے لگا ۔میں انگریزی بول رہا تھا لیکن جس کسی سے بھی میں نے سوال کیا اس نے فرانسیسی میں جواب دیا ۔وہ انگریزی جاننے کے باوجود اسے بولنا پسند نہیں کررہا تھا۔یہ میرے لئے ایک عجیب تجربہ تھا۔ میں گرتا پڑتا اپنی منزل مقصود پر پہنچ تو گیا لیکن ایسے وقت پر پہنچا جب وہ گرجا بند ہوچکا تھا۔ پوچھنے پوچھنے میں دیر ہوگئی تھی۔ فرانسیسیوں کی اپنی ایک ثقافت ہے جسے وہ دیگر یورپی اقوام کی تہذیب سے برتر سمجھتے ہیں۔ وہ توجرمن اور انگریز کو بھی گھاس نہیں ڈالتے۔ ابھی حال ہی میں یورپی اتحاد کے سلسلے میں جس ردعمل کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے، قابل دید ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ فوراً ان کی جان چھوڑے سو میں کہتا ہوں کہ کوئی قوم بھی اپنے تشخص کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور تشخص قومی زبان کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ 1973ء کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ 15برس کے اندر سارا کاروبار اور حکومتی معاملات اردو میں چلائے جائیں گے۔ پھربھی ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ ہم غلام ابن غلام ابن غلام ہیں۔ نادر شاہ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ کا شجرہ نسب کیا ہے تو وہ بولا تھا ’’شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر‘‘ ہماری اس صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہے ۔کیا ستم ہے کہ مطالعۂ پاکستان بھی اسکول میں دوسری جماعت سے انگریزی میں پڑھایا جارہا ہے۔ پرائمری مدارس میں بھی انگریزی لازمی مضمون ہوگئی ہے۔
۰ تو آپ کے خیال میں مضامین اردو میں نہ پڑھائے جانے کی بناء پر ہمارے نظام تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
٭ ہمارے بی اے، بی ایس سی کے اکثر طلباء و طالبات انگریزی میں فیل ہوتے ہیں۔ ہم کتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ کررہے ہیں، کیا ایسا دنیا میں کہیں ہوا ہے؟ انگریزی ناگزیر ہے، ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن انگریزی کی قیمت پر ہماری قوم کی تباہی ہمیں منظور نہیں۔ انگریزی کو اس کا مقام ضرور دیجئے لیکن اپنی قومی زبان کو تو اسکا جائز مقام آپ نے دیا نہیں! اردو دنیا کی تیسری یا چوتھی بڑی بولی جانے والی زبان ہے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے اہمیت دی جائے۔ زبان کی بڑائی کا اندازہ کس بات سے لگایا جاتا ہے؟ اس بات سے کہ اس میں کتنی کتب شائع ہوتی ہیں۔ آپ دیکھیں یہ میرے سامنے انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اردو لغت کے 22والیوم رکھے ہیں جو کہ ہم نے آکسفورڈ کی لغت ِکبیر سے جمع کئے ہیں۔ ہم نے 4 دہائیاں لگائی ہیں ان کتب کو تحریر کرنے میں۔ اُمہاتِ کتب ہمارے پاس ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا ہمارے ہاں ہے۔ لغات ہم نے شائع کی ہے۔ ہر علم پر اصطلاحات اردو میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اسی طرح دفتری مراسلت پر سارا کام اردو میں ہوچکا ہے جس طرح چاہیں اردو کا قومی زبان کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے بشرطیکہ آپ کی نیت میں فتور نہ ہو۔ اب ہمیں بغیر کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوئے یہ کام کرلینا چاہئے۔
۰ علامہ اقبال اور غالب پر جو کام مجلسِ ترقیٔ ادب نے کیا ہے یا جو کیا جارہا ہے اس پر تو روشنی ڈالیں؟
٭ ہمارا ادارہ بحیثیتِ مجموعی اردو ادب پر کتب شائع کرتا ہے۔ تنقیدی، تحقیقی ، علمی، کلاسیکی ادب وغیرہ ہمارے موضوعات ہوتے ہیں۔1977ء اقبال کا سال تھا۔ اس لئے اُس برس ہم نے علامہ پر کتب شائع کیں۔ ہم اب ان پر کچھ شائع نہیں کرتے اور کرنی بھی نہیں چاہئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ادارہ بزم اقبال کے نام سے ہے پھر یہاں سے دس منٹ کی مسافت پر اقبال اکیڈمی ہے ۔ وہاں بھی اشاعت کا کام ہورہا ہے تاہم ہم نے علامہ پر چند بہت اعلیٰ کتب شائع کی ہیں مثلاً پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی کتاب بعنوان’’ اقبال کی 13نظمیں‘‘ ہم نے شائع کی۔ اسی طرح ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی مرتبہ انتہائی مفید کتاب ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘ کے زیر عنوان ہمارے ادارے نے شائع کی۔ اس میں اقبال کی شاعری کے حوالے سے لکھے گئے مضامین یکجا کئے گئے ہیں۔ پھر ہم نے ایک اور کتاب بعنوان ’’اقبال معاصرین کی نظر میں‘‘ شائع کی۔ ایک اور کتاب جس کا میں ذکر کرنا پسند کرونگا علامہ اقبال کی ہے اور اس کا عنوان ’’Stray Reflections‘‘ ہے۔ 1910ء میں علامہ نے جب انکی عمر 33برس ہوگی، اپنی ڈائری میں اس عنوان کے تحت لکھی تھی۔ اسے 1963ء، 1964ء میں انکے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال نے شائع کرایا تھا پھر اس کے کئی ایڈیشن اشاعت پذیر ہوئے۔ اسکا ترجمہ ہم نے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی سے کرایا ۔وہ تھے تو اردوکے استاد لیکن انکی انگریزی بھی نہایت اچھی تھی۔ انہوں نے ’’شذرات فکر اقبال‘‘ کے نام سے اس کتاب کا ترجمہ کیاتھا۔نہایت قابل ستائش اردو تھی اور ہم اس کتاب پر فخر کرسکتے ہیں۔یہ ایک مخلص ترجمہ تھا۔ جہاں تک غالب کا تعلق ہے اس پر بھی ہم نے بہت کتب شائع کی ہیں۔ غالب کی کلیات فارسی 3حصوں میں شائع کی ۔ ایک کتاب ’’مرقعِ غالب ‘‘ کے عنوان سے ہمارے یہاں سے پروفیسر حمید احمد خان کی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے۔ انہیں جب جامعہ پنجاب سے وائس چانسلر کے طور پر جبری ریٹائرکردیا گیا تو وہ ہمارے ہاں آگئے تھے۔ تقریباً4برس کے لئے 1970ء سے 1974ء تک۔ انکی وفات کے بعد احمد ندیم قاسمی آئے جو مجلسِ ترقیٔ ادب میں 32برس اپنی وفات تک ناظم رہے 2006ء تک۔ قاسمی صاحب کی وفات کے بعد 2012ء تک شہزاد احمد ناظم رہے ۔ میں 2013ء میں آیا۔ اقبال کے حوالے سے میں کچھ اضافہ کروں گا اور وہ یہ کہ ’’RELICS OF IQBAL‘‘کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس میں اقبال میوزیم میں علامہ کے نوادرات کی تفصیل تھی۔ میں نے جب وہ دیکھنا شروع کی تو ایک جگہ میں ایک مقالے پر رک گیا۔ علامہ اقبال کا لکھا ہوا تھا۔عنوان تھا ’’بیدل برگساں کی روشنی میں‘‘ تو میں نے کیوریٹر کھوکھر صاحب سے رابطہ کیا اور ان کی اجازت لی تاکہ اسے شائع کراسکوں۔ اس کے بعد میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے پاس گیا تاکہ مزید معلومات اس مقالے کے بارے میں حاصل کرسکوں۔ انہوں نے 38صفحات پر مشتمل علامہ کے اپنے ہاتھ سے تحریر مقالہ مجھے عنایت کیا جس کی نقل ہو بہو کتاب میں شامل کی گئی ہے۔ تحریر کٹی پھٹی ہے مجھے اسے پڑھتے ہوئے 6ماہ لگے لیکن کیا مقالہ ہے ۔پہلے تو میں نے اسے انگریزی میں ہی شائع کرایا پھر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسکا اردو ترجمہ کراکے شائع کیا۔ ایک بہت مفصل مقدمہ اردو میں لکھا۔ پہلا ایڈیشن 1988ء میں شائع ہوا تھا۔ ۰ اس میں علامہ نے بیدل اور برگساں کا موازنہ کیا ہے تو کیا نتیجہ نکالا ہے انہوں نے ؟ ٭ علامہ کہتے ہیں کہ ہنری برگساں نے جو Elan Vital کا فلسفہ پیش کیا تھا اس طرح کا تصور اس سے بہت پہلے فارسی کے شاعر عبدالقادر بیدل پیش کرچکے تھے۔ حقیقت کے بارے میں بیدل کا تصور یہ ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو آپ کو نظر آتی ہے۔ حقیقت کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو مضمر ہیں، چھپے ہوئے ہیں اور ان تک پہنچنے کے لئے ایک خاص طرح کے مزاج کی ضرورت ہے۔ بیدل نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے مثال کے طور پر اس کے ہاں جو حیرت کا تصور ہے وہ قابل غورہے۔ بعد میں یہ تصور بھی عام ہوا ۔کسی کا قول ہے کہ شاعری حیرت کی بیٹی ہے۔ ہمارے ہاں بیرونی مظاہر اور داخلی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیدل کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ان مظاہر سے دھوکہ نہ کھائیے۔ اسی بات کو غالب نے مختلف انداز میں کہا:
ہیں کواکب کچھ، نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
۰ ڈاکٹر صاحب! اب ذرا آج کے ادبی منظر نامے پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے آج کے شعراء اور نثر
نگاروں میں آپ کو کچھ ایسے لوگ نظرآتے ہیں جو ہماری ادبی روایت کو آگے چلاسکیں؟
٭ میں یہ بات کھل کر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں دیوزادوں کی نسل تو ختم ہوگئی ہے ۔آپ صرف 30،40برس پیچھے چلے جائیںکیسا کیسا نام ہے؟ کیسی کیسی جامعیت نظرآتی ہے؟ اب ہمارے اردو نویس کے پاس علمی پس منظر ہی نہیں ہے۔ وہ ایک وسیع لسانی پس منظر جو شخصیت میں وقار پیدا کرتا ہے، عنقا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی تحریر یں سطحی ہوتی ہیں۔ انگریزی تو شاید وہ جانتا ہو اور وہ بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ہمار ے اکابرتو انگریزی بھی جانتے تھے مثلاً ڈاکٹر سید عبداللہ کی انگریزی غیر معمولی تھی۔ ان سے ذرا پیچھے چلے جائیے حافظ محمود شیرانی۔ وہ تو لندن میں بھی ایک عرصہ رہے اور وہاں کی بودو باش پر انکی نظر تھی۔ کیا کیا چیز انہوں نے ڈھونڈ نکالی وہاں سے۔ اب ہمارے پاس حافظ محمود شیرانی یا مولوی شفیع جیسا کوئی نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ یا غلام رسول مہر نہیں ہے، کوئی مشفق خواجہ نہیں ہے۔ وحید قریشی جیسا بھی نہیں ہے۔ عبدالستار صدیقی بھی گئے۔ شاعروں میں دیکھ لیں۔ وہ نسل جو فیض صاحب پر آکر ختم ہوتی ہے، منیر اور فرازپر آکر رک گئی ہے۔ دھڑا دھڑ کتب شائع ہورہی ہیں۔ ایک دن کتاب آتی ہے، اگلے دن فراموش کردی جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سب سے زیادہ شعری مجموعے شائع ہوتے ہیں تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں شاعری نہیں ہورہی۔ نئی نسل میں نوجوانوں میں کچھ ایسے نام ہیں جو بہت اچھی شاعری کررہے ہیں۔
۰ آپ کچھ نام لینا پسند کرینگے؟
٭ شاہین عباس، ادریس بابر اسی طرح ہمارے ایک شاگرد ہیں آفتاب حسین بہت اچھا لکھا ہے انہوں نے ۔ایک عرصے سے جرمنی یا آسٹریا میں کہیں بیٹھے ہیں خود ساختہ جلاوطنی میں۔ سندھ، لاڑکانہ میں اکبر معصوم ہیں۔ سلیم کوثر کی ابھی نعت طیبہ کی کتاب آئی ہے۔ بہت دلکش لکھا ہے ۔ افسانے میں بعض اچھا لکھنے والے موجود ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بڑا افسانہ لکھا جارہا ہے لیکن اچھی تحریریں ہیں۔ طاہرہ اقبال کے بعض افسانے پڑھ کر میں حیران ہوا۔ وہ بڑی روایت جو بیدی سے چلی ہے، بلونت سنگھ سے آگے بڑھی ہے اور قاسمی صاحب تک آئی ہے، میں انکی شاعری کا اتنا قائل نہیں لیکن انکا افسانہ اپنا مضبوط وجود رکھتا ہے ۔ یہ عناصر آج کے افسانے میں موجود ہیں۔ نقادوں میں بھی اچھے ہیں لیکن کوئی محقق نظر نہیں آتا۔ تحقیق کے لئے ایک وسیع لسانی پس منظر ضروری ہے جو ہے ہی نہیں۔ اگر آپ عربی نہیں جانتے تو مخطوطات پر کام نہیں کرسکتے۔ آپ تذکروں پر کام نہیں کرسکتے ۔ فارسی نہ جاننے والے اپنے تاریخی ورثے سے غافل ہیں۔ہماری کلاسیکی تاریخ ساری فارسی میں ہے۔ تزک جہانگیری فارسی میںہے ۔ محقق صرف نسخوں میں اختلافات واضح کرنے یا املا درست کرنے کیلئے نہیں آیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں وحید قریشی اور مشفق خواجہ جیسے اب موجود نہیں۔ وہ فارسی بھی خوب جانتے تھے۔ وحید قریشی تو فارسی کے علاوہ انگریزی بھی بہت اچھی جانتے تھے۔ اعلیٰ پائے کے نقاد تھے۔ ہندوستان میں قاضی عبدالودود اور رشید حسن خان جیسی شخصیتیں ہیں۔ نقادوں میں پورے برصغیر میں شمس الرحمان فاروقی جیسا شخص آپ کو نہیں ملے گا۔ وہ بہت اچھی فارسی جانتے ہیں اور کلاسیکی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کررکھا ہے۔ہمارے محقق ، نقاد اور ادیب کو عربی آتی ہے نہ فارسی آتی ہے او رنہ اردو آتی ہے۔ البتہ مزاح نگاروں میں اشفاق اچھا لکھ رہا ہے۔ وحید الرحمان خان بہت اچھا مزاح لکھ رہے ہیں۔ میں ناامید نہیں ہوں اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں نے جو شاعری کی ہے وہ بہت اچھی ہے اور شاعری اُم الاصناف ہے۔ ہمارے یہاں ہندوستان سے ہزار درجے بہتر شعر لکھا جارہا ہے افسانہ بھی ہند کے مقابلے میں بہتر لکھا جارہا ہے تاہم تنقید کے میدان میں معیار قائم نہیں رہا۔
۰ ڈاکٹر صاحب! ایک وقت تھا کہ ترقی پسند تحریک کے دوران اردو ادب میں بہت بڑے نام آئے پھر خلا پیدا ہوا اور آج آپ کے خیال میں پھر کچھ نام ابھر رہے ہیںتو یہ خلا کیوں پیدا ہوا تھا؟
٭ میں تو ترقی پسند تحریک کے دوران لکھے گئے ادب کی بڑائی کا قائل ہوں لیکن بدقسمتی سے بیشتر لکھنے والوں نے وہاں بھی نعرے لگائے لیکن نعرہ بازی سے تو بڑا ادب پیدا نہیں ہوتا۔ بلاشبہ ادب معاشرے کی خدمت کیلئے تو ہے لیکن اسے نعرہ نہیں بننا چاہئے ۔جب بھی ادب نعرہ بنے گا اس میں سطحیت پیدا ہوجائیگی لیکن وہ ترقی پسند ہوں یا انکے بعدکے ادیب ،انکی وابستگی تھی ادب کے ساتھ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ادب ایک بہت بڑا ذریعہ ہے معاشرتی تطہیر کا بھی۔ اب چونکہ صورتحال ایسی نہیں رہی ، کمرشل ازم کا غلبہ ہوگیا ہے، نئے وسائل آگئے ہیں تو تبدیلی تو لازمی تھی۔ مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں فیس بک استعمال نہیں کرتا تو میں تو اسے ویسے بھی ایک لغو چیز سمجھتا ہوں۔ اس پر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کو ئی نئی کتاب پڑھ لیں ۔ اب ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادیب میں بین العلومیت عنقا ہوگئی ہے۔ جب تک یہ عنصر پیدا نہیں ہوتا، اس میں دانشوری پیدا نہیں ہوگی۔ یہ کہنا کہ میں تو اورجنل لکھتا ہوں، میں دوسرا ادب نہیں پڑھوں گاتاکہ میرا اصلی پن مجروح نہ ہوجائے ،فضول چیز ہے۔
۰ لاطینی امریکہ والوں کو دیکھیں سارے نوبل انعام اٹھائے لئے جارہے ہیں؟
٭ بالکل درست! کیا ہمارے ہاں کوئی مارکیز ہے؟ ہمارے ہاں ایک بڑا نام انتظار حسین کا تھا۔ ایک اور نام عبداللہ حسین کا تھا یا اُدھر قرۃ العین حیدر تھی تو کیا آج ان جیسا کوئی ہے؟
۰ آج کے اردو ادب میں مستنصر حسین تارڑ اور امجد اسلام امجد بڑے نام ہیں، کیا یہ دونوں اس معیار پر نہیں اترتے؟
٭ دونوں یقینا اچھا لکھنے والے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اُس معیار پر پہنچتے ہیں ۔کیا یہ قرۃ العین حیدر کے معیار کے ہیں؟ شوکت صدیقی کے معیار تک پہنچتے ہیں؟ چند برس قبل ہند میں ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ جیسا ناول لکھا گیا تھا ۔ شمس الرحمان فاروقی تو نقاد اور محقق کے طور پر معروف ہیںلیکن ناول جو انہوں نے دیا اسکی زبان دیکھیں اس کی جزئیات دیکھیں، سبحان اللہ۔ اس کا ذخیرہ الفاظ آپ دیکھ لیجئے اور پھر آخر میں انہوں نے ان کتب کی فہرست بھی دیدی جن سے ا ستفادہ کیا تھا ۔یہی کام قرۃ العین کرتی تھیں۔ ہمارے ہاں کا ادیب یہ کام نہیں کرتا۔ وہ مطالعہ نہیں کرتا ۔ وہ ہوم ورک نہیں کرتا۔
۰ اردو ادب کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں؟ اور اس میں آپ کے ادارے کا کیا کردار ہوگا؟
٭ ادب کی پروموشن یا پرورش میں کوئی ایک شخص تو اہم کردارادا نہیں کرسکتا ۔یہ ایک اجتماعی عمل ہے جو ایک خاص طرح کی تہذیبی فضا اور صورتحال کے نتیجے میں جنم لیتا ہے۔ ہم اپنے طور پر کوشش تو کررہے ہیں ۔ میں بھی کررہا ہوں اور دوسرے بھی مصروف ہیں تاہم میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اردو ادب کا مستقبل پاکستان میں بہرحال بہت روشن نہیں ہے لیکن تاریک بھی نہیں ہے ۔جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو وہاں اردو کا مستقبل اب کوئی نہیں ہے۔ بڑے بڑے ادارے تو وجود میں آگئے ہیں۔ نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لٹریچر بڑا ادارہ ہے اور اسے 60کروڑ روپے سالانہ گرانٹ مل رہی ہے، کتابیں چھاپی جارہی ہیں تو بھائی اس سے کیا ہوگا جب کتاب کو پڑھنے والے ہی نہیں ہیں۔ بازار تو قائم کردیا ہے لیکن خریدار نہیں ہیں۔ ہندوستان کی نئی نسل اردو کے رسم الخط سے ہی واقف نہیں ہے۔ خود ادیبوں کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی جامعات میں جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صورتحال اس حوالے سے مختلف نہیں ہے لیکن ہمارے یہاں انٹرمیڈیٹ تک اردو لازمی ہے جو کہ ہندوستان میں نہیںہے۔ وہاں پہلی جماعت کا بچہ 3لازمی زبانیں پڑھ رہا ہے، ہندی، انگریزی اور سنسکرت ! دہلی تو گھر تھا اردو کا اور وہاں اس زبان کو نظر انداز کردیا گیاہے۔ یہ سب باتیں میں نے وہاں کہیں۔ میں نے وہاں یہ واضح کیا کہ پاکستان کی علاقائی زبانیں اردو کی حریف نہیں ہیں۔ اردو کی حریف صرف انگریزی ہے جو ہندوستان اورپاکستان دونوں میں مسلط ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ اردو کی ترویج دہلی، لکھنؤ ، حیدرآباد اور رامپور جیسے مراکز میں ہوئی ۔وہاں ادیب تو اس بات پر خوش ہے کہ اردو میں اس کی کتاب 4یا5 سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہے لیکن وہ کتاب سالہا سال نہیں بکتی۔ وہی کتاب ہندی رسم الخط میںچھاپی جائے تو اس کے قارئین لاکھوں میں ہوتے ہیں۔
۰ وہ فلم اردو میں بناتے ہیں لیکن اعلان ہوتا ہے کہ ہندی میں بنی ہے؟
٭ چند ایک سنسکرت الفاظ اردو میں ٹھونس کر تو اردو کو ہندی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہ سنسکرت الفاظ کا استعمال فلم میں کریں تو2، 3 روز میں فلاپ ہوجائیگی۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پاکستان میں اردو کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اس کے لئے جہاد کرنا ہوگا۔ ایران میں ہر کتاب کا تیسرے دن فارسی میں ترجمہ ہوجاتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ترجمہ ہوتا ہے لیکن اتنی گرمجوشی سے نہیں ۔تو جیسے میں کہہ رہا تھا ہمارے ہاں سے اردو دیوزادوں کی نسل جاچکی ہے۔ اب 4، 5 دہائیوں کے بعد امید ہے پھر کچھ عظیم لوگ سامنے آئیں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شاعری، فکشن اور تنقید میں پاکستان میں کام ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کام آگے بڑھے گا اگرچہ اس رفتار سے نہیں جس رفتار سے ہونا چاہئے۔