افغان باشندوں کی وطن واپسی میں تیزی، ’ڈیڈلائن میں توسیع نہیں ہوگی‘
افغان باشندوں کی وطن واپسی میں تیزی، ’ڈیڈلائن میں توسیع نہیں ہوگی‘
جمعرات 19 اکتوبر 2023 6:48
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
حکام کے مطابق ’چمن بارڈر سے یومیہ 1000 سے 1500 افغان باشندے وطن واپس جا رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حکام کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی چمن کے راستے وطن واپسی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے اور روزانہ اوسطاً 1300 سے 1400 افراد افغانستان واپس جا رہے ہیں۔‘
پاکستانی حکام کو سرحد پر آمدروفت کو قانونی شکل دینے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ افغان سرحدی شہر سپین بولدک کے باشندوں کو سرحد پر روکنے کے جواب میں افغان اہلکار پاکستانی سرحدی شہر چمن کے باشندوں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے سرحد روزانہ گھنٹوں بند رہتی ہے۔ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی کے مطابق ’گذشتہ دو ہفتوں کے دوران سات ہزار افراد پر مشتمل ایک ہزار سے زائد خاندان افغانستان واپس جاچکے ہیں۔‘
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ ’روزانہ 1300 سے 1400 افغان باشندے وطن واپس جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے کے لیے دی گئی یکم نومبر کی ڈیڈلائن میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔‘
’مقررہ مدت کے بعد غیرملکیوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا جائے گا اور اس سلسلے میں سکیورٹی فورسز کارروائیاں شروع کریں گی۔‘
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’چمن کے راستے افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پہلے یہ تعداد 500 سے 600 یومیہ تھی جب کہ اب 1000 سے 1500 افراد واپس جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’افغان باشندے ڈیڈلائن پوری ہونے اور سردی کی شدت میں اضافے سے پہلے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان کی جانب سے پاک افغان چمن سرحد پر آمدورفت کو قانونی شکل دینے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات کی سرحد پر تعینات افغان حکام مخالفت کر رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے 10 اکتوبر سے افغان سرحدی صوبے قندھار اور سرحدی شہر سپین بولدک کے باشندوں کو صرف کمپیوٹرائزڈ افغان شناختی کارڈ ’تذکرہ‘ پر داخلہ دینے کااعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے ایک صفحے پر مبنی ہاتھ سے لکھے ہوئے تذکرہ کی بنیاد پر بھی داخلے کی اجازت دی جا رہی تھی۔
نئے فیصلے پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد افغان فورسز کاروبار اور روزگار کے لیے افغانستان جانے کے خواہش مند چمن کے رہائشیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ پر داخل ہونے سے روک رہی ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے روزانہ سرحد کئی کئی گھنٹے تک بند رہتی ہے۔
اس سے قبل روزانہ پندرہ بیس ہزار افراد پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاکستان اور افغانستان آتے جاتے تھے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ’اب یہ تعداد کم ہو کر 1000 سے 2000 ہزار تک آگئی ہے۔‘
سرحد پر چھوٹے پیمانے پر سامان کی ترسیل کے ذریعے روزگار کمانے والے ہزاروں مزدور (جنہیں مقامی زبان میں لغڑی کہتے ہیں) بے روزگار ہوگئے ہیں۔
لغڑی اتحاد کے رہنما غوث اللہ کا کہنا ہے کہ ’ایک ہفتے سے مزدور گھر بیٹھے ہیں کیونکہ پاکستانی حکام کی سختیوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی باشندوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’روزانہ 10 سے 15 ہزار افراد چمن سے افغان سرحدی شہر سپین بولدک جا کر مزدوری، تجارت اور کاروبار کرتے تھے، اب ان کے لیے سرحد پار جانا مشکل ہوگیا ہے۔‘
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا کہ ’سرحدی علاقوں کے افراد کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کے مکمل اطلاق تک مختلف متبادل بندوبست پر غور کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں جلد حکمت عملی طے کرلی جائے گی۔‘