پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست میں بڑے پیمانے پر ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔
سیاسی مبصرین اب سیاسی منظر نامے کو نواز شریف کی واپسی کے بعد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ وطن واپسی کے نواز شریف نے اتوارکا دن اپنے گھر رائیونڈ میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارا۔
ان سے چند پارٹی رہنماؤں اور وکلا نے بھی ملاقات کی۔ ان سے ملاقات کرنے والے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف سے ملاقات میں ان کی 24 اکتوبر کی عدالتی پیشی سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اور ابھی اگلا کچھ عرصہ تو قانونی معاملات میں گزرے گا۔ کیونکہ یہ سب سے اہم ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
نواز شریف عورت دشمنی کی غار سے باہر نکلیں، عورت مارچ کی تنقیدNode ID: 805886
پیر کو نواز شریف لاہور سے مری میں اپنی رہائش گاہ روانہ ہو گئے جہاں سے وہ منگل کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے۔
دوسری مسلم لیگ ن کی جانب سے لاہور میں پاور شو کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی آئندہ کی منصوبہ بندی پر کام شروع کر دیا ہے۔
اے این پی کے غلام بلور جو رائیونڈ نواز شریف سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے، ان کی ملاقات تو نہیں ہوئی البتہ انہوں نے عندیہ دیا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کے چلا جا سکتا ہے۔
اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور جی ڈی اے کی طرف سے مقامی میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی ہیں جیسے مسلم لیگ ن کےساتھ انتخابی اتحاد کے لیے اکثر پارٹیاں پر تول رہی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی مگر کہتے ہیں کہ ابھی نواز شریف کیا چاہتے ہیں اس کا فوری سامنے آنا مشکل ہے۔
’ابھی تو اگلے چند ہفتے وہ اپنی قانونی موشگافیوں سے نمٹیں گے۔ پھر وہ باضابطہ سیاسی ملاقاتیں شروع کریں گے تو اس وقت سیاسی کہانی آگے بڑھے گی۔ کیونکہ ابھی بہت کچھ حل طلب ہے۔ ویسے تو تاثر یہی ہے اور ان کی تقریر سے بھی ظاہر ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ اس فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی جیسے شور مچا رہی ہے اس سے یہ تاثر بھی آ رہا ہے کہ اس بار شائد سندھ میں وہ پہلے کی طرح مضبوط نہ ہو تو اس صورت میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے، مسلم لیگ ن ایک ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔‘
’لیکن نواز شریف ایسا نہیں چاہیں گے البتہ شہباز شریف کے یہ مسائل نہیں ہیں۔ نواز شریف کی سیاست کو جتنا میں جانتا ہوں وہ اب دباؤ میں فیصلے نہیں کریں گے بلکہ ان کے فیصلے سیاسی ہوں گے۔ وہ پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات بھی کریں گے کیونکہ ان کو کریڈیبلٹی بھی چاہیے۔ اس لیے اگلے چند ماہ پاکستانی سیاست کے بڑے ہنگامہ خیز ہوں گے اور بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ شائد نواز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے خود ہی نہ الگ ہو جائیں، لیکن یہ آنے والے وقت میں واضع ہو گا۔‘
سلمان غنی کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح کا تاثر ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے ہے ایسی صورت میں کریڈیبلٹی نہیں ہو گی اور یہ بات نواز شریف کی اب طبیعت سے میل نہیں کھاتی۔
