Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کی تقریر، ’بیانیہ آہستہ آہستہ کھلے گا‘

نواز شریف نے اپنے خطاب میں کارکنوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اب دوبارہ سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر ناکامیوں سے دور لے جائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے چار برس بعد وطن واپسی کے موقع پر لاہور میں مینارِ پاکستان کے مقام پر ایک بڑے جلسے کے ذریعے پاور شو کیا ہے۔
نواز شریف نے قومی وقار، حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے، مہنگائی، ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بھی ذکر کیا اور کارکنوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اب دوبارہ سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر ان ناکامیوں سے دور لے جائیں گے۔
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ کیسے کریں گے اور ان کے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کی جزیات کیا ہیں اور ان کے پاس ایسا کون سا منصوبہ ہے جس کے ذریعے ملک کے حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا خطاب بیانیے کے لیے نہیں بلکہ کارکنوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے تھا جس میں کسی حد تک ایک پوشیدہ بیانیہ بھی تھا۔ 
’ان کا بیانیہ یہ ہے کہ عمران خان وہ نہیں ہیں جو نواز شریف ہیں۔ عمران خان جعلی مذہبی جبکہ نواز شریف اصلی مذہبی ہیں۔ نواز شریف ثقافت، قومیت اور لوگوں سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے ایجنڈے میں ترقی اور قومی وقار بھی شامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف آئندہ آنے والے دنوں میں بیانیے پر مزید بات کریں گے لیکن ان کی تقریر کارکنوں کے ساتھ دوبارہ جڑنے کی ایک کوشش تھی اور اس میں وہ 100 فیصد کامیاب رہے۔‘
ضیغم خان نے کہا کہ نواز شریف کی تقریر ارسطو کی ان تینوں سطور کا احاطہ کر رہی تھی جو انہوں نے ایک بہترین تقریر کے لیے متعین کیے تھے۔
’ارسطو کے مطابق ایک بہترین تقریر جذبات، دلیل اور ساکھ کے خطوط پر استوار ہوتی ہے اور نواز شریف کی تقریر بھی ان تینوں خطوط پر محیط تھی جس پر مجھے حیرانی ہے۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ’یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ عمران خان کو بھی لیول پلئینگ فیلڈ ملتی ہے یا نہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک ماسٹر کلاس سیاسی تقریر تھی جس میں نواز شریف نے بڑی خوبی سے کارکنوں کے ساتھ دوبارہ اپنی کیمسٹری بنائی۔ اپنے آپ کو کارکنوں کے جذبات سے جوڑا۔ میرے خیال میں ان کو اس پر پورے 100 نمبر بنتے ہیں۔‘
تاہم ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی حقیقی حکمت عملی اور بیانیے سے پردہ آنے والے دنوں میں ہی ہٹے گا۔
’انہوں نے سنیچر کی تقریر میں بظاہر تنازعات سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کو تنازعات میں خصوصیت حاصل ہے۔ ان کی سیاست کا آغاز ہی تنازع تھا جب انہوں نے بھٹو کے خلاف ایک ووٹ بینک تشکیل دیا۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان کا مخالف جیل میں پڑا ہے، اگر وہ باہر ہوتا تو اگلے دن ہی نواز شریف کے بیانیے میں سوراخ کر دیتا۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے۔‘
سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے خیال میں نواز شریف نے ابھی اپنا بیانیہ نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد پہلی تقریر میں بیانیہ نہیں بلکہ دوسری جماعتوں کو پیغام تھا کہ وہ بدلہ یا انتقام لینے نہیں آئے، جو ایک مثبت پیشرفت ہے۔‘

ضیغم خان نے کہا کہ نواز شریف کا خطاب بیانیے کے لیے نہیں بلکہ کارکنوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’یہ بیانیہ نہیں ورکرز سے بات کرنے کا دن تھا، وہ آہستہ آہستہ آنے والے دنوں میں اپنا بیانیہ کھل کر بتائیں گے، ابھی ان کا بیانیہ نہیں آیا۔ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ وہ آگے کیسے بڑھتے ہیں۔‘
’یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ عمران خان کو بھی لیول پلینگ فیلڈ ملتی ہے یا نہیں۔ مستقبل کا سیاسی منظرنامہ اس سوال کے جواب پر بھی منحصر ہے۔‘

شیئر: