Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں اکتوبر سیاسی تحریکوں، فوجی بغاوت اور تبدیلی کا مہینہ کیوں؟

12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے فوج بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ (فوٹو: ڈان اخبار)
 پاکستانی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ سیاسی حوالوں سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ قدرتی آفات سے لے کر بڑے سیاسی فیصلوں تک اکتوبر کا مہینہ تاریخ ساز رہا ہے۔ اس مہینے میں نہ صرف سیاسی داؤ پیچ ہوتے رہے بلکہ سیاسی تحریکوں میں عسکری عنصر شامل کر کے کامیابیاں بھی حاصل کی گئیں۔
آزادی کے بعد آنے والے  پہلے اکتوبر میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور انڈیا کے مابین جنگ شروع ہوئی جبکہ رواں برس اکتوبر میں ہی پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن لوٹ کر سیاسی سفر شروع کیا۔
ایک وزیراعظم کی برطرفی، استعفیٰ اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کا واقعہ بھی اکتوبر کے مہینے میں ہی وقوع پذیرا ہوا۔
 اکتوبر میں بڑے تاریخی واقعات اور سیاسی داؤ پیچ کو پشاور یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر فخر الاسلام  اتفاقیہ بتاتے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک اتفاق ہے کہ اکتوبر کے مہینے  میں اس طرح سیاسی سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں، یہ کسی طے شدہ ٹائم فریم کے مطابق ہرگز نہیں ہو رہے۔ تاریخ میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جن میں  بعض اوقات واقعات زیادہ ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے اس سے متعلق دسمبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دسمبر کا مہینہ بھی تاریخ پاکستان میں ’ستمگر دسمبر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس مہینے میں  حادثات زیادہ ہوئے ہیں۔
’مثال کے طور پر سقوط ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کو ہی دیکھ لیں، تو یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ’کھوٹا تسلسل‘ بن جاتا ہے۔ اسی طرح اکتوبر بھی ہے جس میں نہ صرف پاکستان بلکہ روس میں بھی انقلاب برپا ہوا۔ اس لیے  پوری دنیا میں  اس مہینے کو ڈر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔‘
اکتوبر کا مہینہ  پاکستان کی آزادی سے  لے کر آج تک اہمیت کا حامل رہا ہے۔

سات اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

11 اکتوبر 1947 کو ریاست خیرپور نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو 17 اکتوبر کو ریاست بہاولپور نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ اسی طرح 24 اکتوبر یعنی آج کے دن ہزاروں قبائلی مظفرآباد میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے ’آزاد کشمیر‘ کی حکومت قائم کی۔
ڈاکٹر فخر الاسلام  اکتوبر کے مہینے میں  ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اسی مہینے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو قتل کیا گیا۔ ’پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو بھی 16 اکتوبر 1951 کو قتل کیا گیا، جو کہ معمہ ہی رہ گیا اور پہلا مارشل لا بھی اسی مہینے میں نافذ کیا گیا۔‘
آٹھ برس بعد اسی مہینے 24 اکتوبر 1960 کو گجرات میں سب انسپکٹر محمد شاہ کو بھی مارا گیا جس نے لیاقت علی خان کے قاتل اکبر علی کو  گولی ماری تھی۔
پنجاب یونیورسٹی، پاکستان سٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نعمانہ کرن عمران بتاتی ہیں کہ ہر ایونٹ کا ایک پس منظر ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ سارے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
’اس لیے  اس تسلسل کو اتفاقیہ ہی کہہ سکتے ہیں، 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کی تو اس کے پیچھے ایک وجہ تھی کہ  ایک بل پاس ہوا جس میں گورنر جنرل کے اختیارات کو کم کیا گیا۔ اس کے جواب میں گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ اتفاق یہ بھی ہے کہ سات اکتوبر 1958 کو صدر پاکستان سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور عزیز احمد کو سیکریٹری جنرل سمیت ڈپٹی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔‘
اس حوالے سے ڈاکٹر فخر الاسلام بتاتے ہیں ’ہمیں وہ مارشل لا تو یاد ہے لیکن اس سے قبل 1954 میں جو حکومت بنی تھی وہ کسی کو یاد نہیں۔ یہ ایک ایسی حکومت تھی کہ وزارت داخلہ کے سیکریٹری بھی وزیر بن گئے۔ اسی طرح ایوب خان آرمی چیف بھی تھے اور وزیر دفاع بھی۔‘
ان کے مطابق اس کے بعد جو ’کیبینٹ آف ٹیلنٹس‘ بنی، اس میں حاضر سروس جنرل سمیت حاضر سروس بیوروکریٹس وزیر بن گئے تھے۔

 24 اکتوبر 1960 کو گجرات میں سب انسپکٹر محمد شاہ کو بھی مارا گیا جس نے  لیاقت علی خان کے قاتل  اکبر علی کو  گولی ماری تھی۔ (فوٹو: وکی پیڈیا) 

’یہیں سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کا آغاز ہوا اور پھر بات سات اکتوبر 1958 تک جا پہنچی، جب مارشل لا نافذ کیا گیا اور سکندر مرزا نے تمام الزامات سیاسی لوگوں پر لگا کر ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔‘
ان کے بقول سکندر مرزا کا خیال تھا کہ ایوب خان ان کے زیرسایہ کام کریں گے۔  ’ایسا کب ہو سکتا تھا؟ پھر وہی ہوا، سکندر مرزا کو 20 دن بعد جہاز میں بٹھا کر ملک بدر کیا گیا جہاں انہوں نے بلاد غیر میں ہوٹل میں نوکری شروع کی۔ اور جب ان کا انتقال ہوا تو انہیں دفنانے کے لیے بھی زمین نہ ملی جس کے بعد انہیں ایران میں دفن کیا گیا۔‘
اس سوال پر کہ 31 اکتوبر 1984 میں پاکستان نے انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل پر تین دن سوگ کا اعلان کیا، کیا اس مہینے میں نیشنل پالیسی شفٹ ہونا بھی محض اتفاق ہے؟  ڈاکٹر فخر الاسلام کا کہنا تھا کہ سیاسی حوالوں سے کبھی بھی مہینوں کی تخصیص نہیں ہوئی۔
’دنیا کے کسی بھی آئین میں نہیں ہے کہ اکتوبر میں سیاسی واقعات یا سیاسی داؤ پیچ زیادہ ہوں گے۔ مذہبی حوالوں سے مہینوں کی تخصیص رمضان، محرم اور ربیع الاول کی طرح ہوتی ہے لیکن سیاسی حوالوں سے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، ہم نے اس مہینے کامیابیاں بھی حاصل کیں ہیں۔‘
سات اکتوبر 1998 کو آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے تو نواز شریف نے منگلا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔
’یہی پرویز مشرف جب آرمی چیف بنے تو 12 اکتوبر 1999 میں انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اسی طرح نواز شریف ایک سے زائد مرتبہ ملک بدر ہوئے لیکن اس بار اُن کی واپسی بھی 21 اکتوبر میں ہوئی۔
اکتوبر میں یوں سیاسی  تحریکوں اٹھنا محض اتفاق ہوسکتا ہے لیکن  اکتوبر کے کئی مہینے ایسے بھی آئے جن کی وجہ سے پاکستانی سیاسی تاریخ کے دھارے بھی بدلے۔ 
20 اکتوبر 2011 میں عمران خان کا مینار پاکستان پر تاریخی جلسہ ہو یا پھر آٹھ سال بعد 30 اکتوبر 2019 کو مولانا فضل الرحمان کی ریلی، اس طرح کی تحریکوں نے  پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا۔

شیئر: