اگست میں بننے والی نگراں حکومت میں بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ وزیراعظم بنے (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان کی پارلیمانی نظام میں عددی اقلیت ہونے کی وجہ سے صدر، وزیراعظم سمیت دیگر اہم وفاقی سیاسی عہدوں پر بلوچستان کے لوگ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں تاہم اب یہ روایت ٹوٹتے ہوئے نظر آتی ہے کیوں کہ نگراں وزیراعظم کے علاوہ چیئرمین سینیٹ، وفاقی وزیر داخلہ سمیت کئی اہم عہدوں پر بلوچستان کے لوگ تعینات ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اہم عہدوں پر بلوچستان کے لوگوں کی تعیناتی سے صوبے کے عوام کی محرومیوں کے خاتمے میں کوئی خاص مدد ملی ہے اور نہ ہی دیرینہ مسائل کے حل کی جانب کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔
اگست میں بننے والی نگراں حکومت میں بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کاکڑ وزیراعظم بنے۔ ان کی کابینہ میں ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سرفراز احمد بگٹی وزیر د اخلہ بنائے گئے جبکہ کوئٹہ سے ہی تعلق رکھنے والے جمال شاہ کاکڑ کے پاس وفاقی وزیر ثقافت کا قلمدان ہیں۔
چاغی سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی اگست 2018ء سے چیئرمین سینیٹ ہیں جو ملک کا تیسرا بڑا آئینی عہدہ ہے۔
اسی طرح 17 ستمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کا تعلق بھی بلوچستان کے ضلع پشین سے ہے۔
سوال یہ ہے کہ وفاق میں اہم سیاسی و آئینی عہدوں پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی تعیناتی کے باوجود صوبے کے عوام کی محرومیوں کی بات کیوں نہیں کی جا رہی؟
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر ڈاکٹر منان آزاد نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کاکڑ قبیلہ بلوچستان کے بڑے قبائل میں سے ایک ہے جب ایک کاکڑ وزیراعظم آیا تو نہ صرف اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں بلکہ صوبے کی عوام نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور نگراں وزیراعظم سے یہ امید وابستہ کی کہ اب کم از کم پشتون علاقوں میں ترقی ہوتی ہوئی ضرور نظر آئے گی مگر اب تک کے اقدامات سے ایسا کوئی تاثر نہیں مل رہا۔ وزیراعظم تو اب تک اپنے آبائی علاقے کا دورہ بھی نہیں کر سکے۔‘
ڈاکٹر منان نے رائے دی کہ ’ان شخصیات کا تعلق بلوچستان سے ضرور ہے مگر یہ بنیادی طور پر بلوچستان کے عوام کی مجموعی فکر کی بجائے اسلام آباد اور مرکز کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس لیے اہم وفاقی عہدوں پر موجود ہونے کے باوجود بلوچستان کے حالات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور نہ ہی صوبے کے حوالے سے پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نگراں وزیراعظم اور موجودہ حکومت میں بڑے عہدوں پر تعینات لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر فیصلوں کا اختیار کسی اور کے پاس ہے۔‘
سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’اس حد تک تو اپنائیت نظر آتی ہے کہ وزارت عظمیٰ، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس اور وفاقی وزارتوں پر بلوچستان کے لوگ تعینات کیے گئے ہیں لیکن اب تک صوبے کے حوالے سے کوئی غیر معمولی اقدامات نظر نہیں آرہے جن سے بلوچستان کے لوگوں کو کوئی بڑا فائدہ ہوا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ تو نگراں وزیراعظم ہیں اس سے پہلے بلوچستان کے ضلع جعفرآباد سے تعلق رکھنے والے ظفر اللہ جمالی منتخب وزیراعظم تھے اور وہ تقریباً دو سال اس عہدے پر رہے مگر وہ بھی ایسا کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ کر سکے جسے عوام یاد رکھ سکتے۔‘
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’وزیراعظم، چیف جسٹس یا وزیر داخلہ ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ میرٹ کے خلاف کوئی بھی ایسا کام کیا جائے جس سے صوبے کے باقی لوگوں کی حق تلفی ہو مگر کم از کم یہ ضرور نظر آنا چاہئے کہ ان اہم آئینی عہدوں پر تعینات افراد کی جانب سے بلوچستان کے عوام اور ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے یا ملازمتوں میں صوبے کے کوٹے اور وفاقی منصوبوں میں صوبے کے لیے مختص منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کیا جائے۔ہو سکتا ہے کہ پائپ لائن میں کچھ منصوبے ہوں مگر زمینی حقائق سے ایسا کچھ واضح نہیں ہو رہا۔‘
بلوچستان کے مقامی اخبار کے ایڈیٹر سینئر تجزیہ کار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کا صرف ڈومیسائل ہی بلوچستان کا ہے ان کا نظریہ اور فکر بالادست طبقے کے تابع ہے لہٰذا ان کے بلوچستان کے باسی ہونے سے یہ سمجھنا کہ اس سے صوبے کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا محرومیوں کا ازالہ ہوگا تو یہ محض ایک خوش فہمی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس نظام کا حصہ ہیں وہ شاید سپریم کورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں مگر ان سے بھی کسی بڑے کارنامے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔‘
تاہم بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور تجزیہ کار لیاقت شاہوانی سمجھتے ہیں کہ ’محدود اختیارات کے باوجود موجودہ نگراں وزیراعظم اور کابینہ کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی کارکردگی بہتر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نگراں حکومت کےا ختیارات محدود ہوتے ہیں وہ نئے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری نہیں کرسکتی ۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ تک الیکشن کمیشن کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی جبکہ بلوچستان کی محرومیاں بہت زیادہ ہیں اس لیے چند ماہ کی یہ نگراں حکومت ان محرومیوں کو دور نہیں کرسکتی لہٰذا ان سے کوئی بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ’موجودہ وزیراعظم اور کابینہ کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچستان کے مسائل کے حل اور بہتری کے لیے کردار ادا کررہے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس اور وفاقی وزارتوں کے دفاتر تک بلوچستان کے لوگوں کی رسائی بڑھی ہے اور ان کے مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے بہت ساری چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوں مگر ہر وزیراعظم کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے صوبے یا حلقے کے لیے کچھ نہ کچھ کرے۔‘
انہوں نے کہا، ’وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ان کی ضرور یہ خواہش ہوگی کہ وہ صوبے کے مسائل میں کسی حد تک کمی لائیں۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں کوئٹہ کراچی شاہراہ کو تین ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، اس طرح وہ کئی اور منصوبوں میں بھی گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔‘
لیاقت شاہوانی نے کہا، ’پاکستان کا موجودہ وفاقی جمہوری نظام اکثریت کی بنیاد پر چل رہا ہے، 300 سے زائد نشستوں میں سے صرف 20 نشستوں کی بنیاد پر بلوچستان کا صدر یا وزیراعظم کبھی منتخب نہیں ہو سکتا۔ یہ تو نگراں حکومت میں موقع مل جاتا ہے ۔ کم آبادی والے صوبوں کا وفاق میں اسٹیک بڑھانے کے لیے صدر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر باری باری ہر صوبے سے تعیناتی کی جانی چاہئے۔‘
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سربراہ ممتاز بلوچ سمجھتے ہیں کہ ’چند شخصیات کی بڑے عہدوں پر موجودگی کی بجائے یہ بات اہم ہے کہ صوبے کے عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ نظام کا حصہ ہیں، ان کی بات سنی جائے۔ سیاسی نظام میں شفافیت لائی جائے تو نہ صرف محرومیوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ صوبے کے عوام کا اعتماد بھی جیتا جاسکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان بہت سے پیچیدہ مسائل کا سامنا کر رہا ہے جن کی وجہ سے محرومیوں نے جنم لیا ہے لیکن ان سب مسائل کا حل ممکن ہے ۔سری لنکا میں اگر تاملوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو نیک نیتی سے کام کرنے پر بلوچستان کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔‘