کیا غزہ جنگ پھیلنے سے عرب ممالک ممکنہ معاشی بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
کیا غزہ جنگ پھیلنے سے عرب ممالک ممکنہ معاشی بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
منگل 24 اکتوبر 2023 16:31
لبنان سے فلسطینی اتحادی دھڑے سرحد پار سے روزانہ فائرنگ کا تبادلہ کرتے ہیں (فائل فوٹو: عرب نیوز)
مشرق وسطٰی کے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ بحران سے دوچار علاقائی ممالک کو غزہ تنازع سے پھیلنے والی وسیع تر افراتفری کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے تجزیے کے مطابق غزہ کا تنازع پڑوسی ممالک تک پھیلنے سے مغربی میڈیا عالمی معیشت کے لیے ’شدید اثرات‘ کے بارے میں خبردار کر رہا ہے۔
اسرائیل حماس تنازع سے پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر لبنان سے حزب اللہ اور اس کے اتحادی فلسطینی دھڑے اسرائیل کے ساتھ روزانہ سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ کرتے ہیں۔
امریکی بحریہ کے ایک جہاز نے یمن میں حوثی ملیشیا کی طرف سے داغے گئے میزائلوں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔
شام میں دو امریکی اڈے آگ کی زد میں آگئے ہیں اور عراق میں امریکی افواج پر ڈرون حملوں کے ساتھ راکٹ برسائے گئے ہیں۔
سعودی عرب، کویت، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور کینیڈا سمیت متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو لبنان کا سفر کرنے سے احتیاط برتنے کی ہدایت کی ہے۔
اسرائیل فلسطین تنازع کی طویل ہونے کے 60 فیصد امکانات کے پیش نظر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا سمیت علاقائی مداخلت کاروں کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی پیش گوئی کرتے ہوئے لندن میں مقیم ماہر تجزیہ کار علی متولی کا کہنا ہے کہ عراق، لبنان اور شام کی معیشتیں سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔
علی متولی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حزب اللہ، اسرائیل کے ساتھ تنازع میں الجھتی ہے تو لبنان کو اس گروپ کے ساتھ قریبی وابستگی اور براہ راست فوجی مداخلت کی وجہ سے اہم اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لبنان میں سیاحت اور مہمان نوازی کے شعبے اس تنازع کے باعث سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے، یہ وہ شعبے ہیں جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بیروت کی بندرگاہ کو اس تنازع میں پہنچنے والے کسی بھی قسم کے نقصان یا پورٹ بند ہونے سے مزید مسائل جیسے ضروری اشیا اور ایندھن کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
متولی نے اپنے جائزے میں قیاس آرائی کی ہے کہ لبنان کے بینکوں میں 2019 کے مالیاتی خسارے اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید کسی قسم کا جھٹکا ملک میں باقی رہ جانے والے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دے گا۔
اسی طرح شام جو 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے میدان جنگ بنا ہوا ہے اور ایک دہائی سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ، ایندھن اور ادویات کی قلت، گرتی ہوئی کرنسی، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق شام میں 90 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور تقریبا ڈیڑھ کروڑ شامی باشندوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔