Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سبی ہرنائی ریلوے لائن: ’جسے بچھانے کے دوران برطانوی فوج بھی بھاگ گئی تھی‘

بلوچستان کے ضلع ہرنائی کو سبی سے ملانے والی تاریخی ریلوے لائن کو 17 سال بعد بحال کردیا گیا۔ 2006ء کے بعد پہلی مسافر ٹرین سبی سے ہرنائی کے لیے روانہ ہوگئی۔
اتوار کو نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان میر علی مردان ڈومکی اور نگراں وزیر ریلوے شاہد اشرف تارڑنے سبی ریلوے سٹیشن پر ٹرین سروس کی بحالی کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر چھ بوگیوں پر مشتمل پہلی ٹرین کو سبی ریلوے اسٹیشن سے ہرنائی کے لئے روانہ کیا گیا۔
ہرنائی ریلوے اسٹیشن پر 17 سال اور 8 ماہ بعد ٹرین کی آمد پر لوگوں نے جشن منایا۔
سینکڑوں لوگوں نے پٹڑی کے دونوں جانب کھڑے ہوکر ٹرین کا استقبال کیا۔ بچوں اور بڑوں نے ٹرین پر سوار ہوکر خوشی کا اظہار کیا، نعرے لگائے اور پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔
ہرنائی اور سبی کے درمیان پہاڑی دشوار گزار اور نا ہموار علاقے میں کوئی پختہ سڑک نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کچے اور پر خطرعلاقوں میں لوگ سفر کرنے سے کتراتے تھے اور انہیں صرف 94 کلومیٹر دور سبی جانے کے لیے کوئٹہ کا 330 کلومیٹر طویل راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔
حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ سبی ہرنائی ریلوے سروس کی بحالی سے نہ صرف سبی ڈویژن کی گیارہ لاکھ سے زائد آبادی فائدہ اٹھاسکے گی بلکہ ہرنائی کے تازہ پھل، سبزیوں کےعلاوہ کوئلہ کو جلد اور سستے نرخوں پر ملک کے دیگر صوبوں کی مارکیٹوں تک پہنچایا جاسکے گا۔ اس طرح سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔
نگراں وفاقی وزیر ریلوے شاہد اشرف تارڑ نے اعلان کیا کہ آئندہ دس دنوں میں ہرنائی سے مال بردار ٹرین بھی چلائی جائے گی جس سے زرعی پیداوار اور کوئلہ کی ملک کے باقی علاقوں کی ترسیل ہوسکے گی۔
انگریز دور میں 18 ویں صدی کے آخر میں بننے والا یہ بلوچستان میں ریلوے کا سب سے منافع بخش سیکشن سمجھا جاتا تھا جہاں سے مسافروں کی آمدروفت، پھلوں، سبزیوں اور کوئلہ کی ملک بھر میں ترسیل سے ماہانہ کروڑوں روپے آمدن ہوتی تھی۔
تاہم 2006 کے اوائل میں کالعدم مسلح تنظیم کے عسکریت پسندوں نے ریلوے لائن کے کئی پلوں اور پٹڑی کے ایک بڑے حصے کو سلسلہ وار بم دھماکوں کے ذریعے تباہ کردیا تھا جس کے باعث تقریباً سوا صدی میں پہلی بار اس ریلوے لائن پر پونے اٹھارہ سالوں تک کوئی ٹرین نہیں چلی۔
وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ ’ہمارے 18 سال ضائع ہوئے اب ہم اس عزم کے ساتھ دوبارہ اس ٹرین سروس کو شروع کررہے ہیں کہ اس میں کسی کو خلل ڈالنے نہیں دینگے۔‘

ریلوے حکام کے مطابق اس منصوبے کے تحت سبی اور ہرنائی کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں 50 چھوٹے بڑے پل دوبارہ بنائے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس ٹرین میں دو دہائی قبل بحیثیت ضلع ناظم سفر کیا تھا اور اس کی بندش سے  علاقے کے عوام کی مشکلات کا احساس تھا۔
’اب اس ٹرین کو کسی صورت بند نہیں ہونے دیا جائےگا۔ ایف سی اور دیگر سکیورٹی ادارے مسافروں، ٹرین اور ریلوے تنصیبات کی  یقینی بنائیں گے۔‘
ریلوے حکام کے مطابق اس منصوبے کے تحت سبی اور ہرنائی کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں 50 چھوٹے بڑے پل دوبارہ بنائے گئے، ہرنائی ریلوے سٹیشن کی از سرنو تعمیر کی گئی جبکہ سبی ریلوے اسٹیشن کی مکمل تزئین و آرائش سمیت کل 9 ریلوے سٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دو نئے ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔
پاکستان ریلویز کوئٹہ ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ فرید احمد نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ سبی ہرنائی ریلوے کے پلوں اور ریلوے سٹیشنوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا کام نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے کیا جس پر اڑھائی ارب روپے کی لاگت آئی۔ جبکہ ریلوے پٹڑی کی مرمت پاکستان ریلوے نے اپنے طور پر کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں سبی سے ہرنائی تک 94 کلومیٹر لائن کو بحال کیا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں ہرنائی سے ناکس، شاہرگ اور خوست تک باقی 39 کلومیٹر لائن کی مرمت کا کام کیا جائے گا۔
ڈی ایس ریلوے کے مطابق سبی اور ہرنائی کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر مسافر ٹرین چلائی جائے گی اگلے مرحلے میں مال بردار ٹرین سروس بھی شروع کی جائے گی۔

حکام کو خدشہ ہے کہ بحال ہونے والی ریلوے لائن کو عسکریت پسند دوبارہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

این ایل سی حکام کے  مطابق تخریب کاری اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے لوہے کے 22 پلوں کو نقصان پہنچا تھا جبکہ 10 ریلوے سٹیشنوں کی بھی  حالت طویل عرصے تک مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔
مارچ 2016ء میں اس وقت کی حکومت نے اس منصوبے کی بحالی کا کام شروع کیا۔ حکومت نے اس منصوبے کو مارچ 2018 تک مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم جنوری 2018 میں ناکس اسٹیشن پر حملے کے نتیجے میں پانچ مزدوروں کے مارے جانے کے بعد بحالی کا کام روک دیا گیا تھا۔
سکیورٹی مسائل اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ کئی سالوں تک التوا کا شکار رہا اور تعمیراتی کام شروع ہونے کے سات سال بعد اس کا افتتاح ہوا۔
پاکستان ریلویز نے پلوں  کی دوبارہ تعمیر اور ریلوے سٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کا ٹھیکہ نیشنل لاجسٹک سیل کو دیا تھا۔ این ایل سی حکام کے مطابق سکیورٹی کی خراب صورتحال کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور علاقے میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک مشکل منصوبہ تھا۔
ان کے مطابق سبی ہرنائی ریلوے لائن کے آس پاس کا علاقہ ابتدا سے ہی الگ تھلگ اور پسماندہ  ہے۔ پورا علاقہ پہاڑی دشوار گزار اور نا ہموار ہے۔
نئے پلوں کو مقامی طور پر بنانا مشکل تھا اس لیے سٹیل کے 22 پل کراچی میں بنائے گئے اور پھر این ایل سی کے انجینئرز نے بڑی محنت سے مطلوبہ مقامات تک پہنچائے۔
کوئٹہ کے شمال مشرق میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہرنائی پہلے سبی کا حصہ تھا جسے اگست 2007 میں الگ ضلع بنایا گیا۔
یہ پشتون اکثریتی ضلع ہے تاہم کچھی، کوہلو اور سبی سے ملحقہ  پہاڑی علاقوں میں بلوچوں کا مری قبیلہ آباد ہے-
یہ ضلع کوئلے کے ذخائر، پھلوں اور سبزیوں کے لئے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں سے ہر ہفتے ٹرکوں کے ذریعے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کی صنعتوں کے لیے ہزاروں ٹن کوئلہ بھیجا جاتا ہے۔
ہرنائی کا شمار بلوچستان کے بدامنی اور شورش سے متاثرہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ یہاں کے سنگلاخ دشوار گزار پہاڑوں میں کالعدم تنظیموں کے ٹھکانے موجود ہیں۔

ہرنائی کا شمار بلوچستان کے بدامنی اور شورش سے متاثرہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عسکریت پسند کوئلہ کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ رواں سال جون میں دو مختلف واقعات میں کوئلہ سے لدے نو ٹرکوں کو عسکریت پسندوں نے نذر آتش کردیا تھا جبکہ 45 ٹرکوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے۔
رواں سال اگست میں بھی نامعلوم تخریب کاروں نے اس ریلوے ٹریک پر دھماکا کیا تھا۔
حکام کو خدشہ ہے کہ بحال ہونے والی ریلوے لائن کو عسکریت پسند دوبارہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لیے حفاظتی اقدامات پر توجہ دی گئی ہے۔
ڈی ایس ریلوے کوئٹہ فرید احمد کے مطابق سبی سے ہرنائی تک ریلوے لائن کے ساتھ 58 سکیورٹی چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں تاکہ کسی ممکنہ حملے کو روکا جاسکے۔
ہرنائی کے رہائشی شیر باز ترین نے ہرنائی سبی ریلوے سروس کی بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں اضلاع کی عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہرنائی سے سبی تک جانے کے لیے پہاڑی اور دشوار گزار کچے راستے سے جانا پڑتا تھا جس کے لیے کم از کم پندرہ سو روپے کرایہ دینا پڑتا تھا۔
اسی طرح سبزیوں اور کوئلہ کی ٹرکوں کے ذریعے ترسیل بھی مہنگی اور وقت طلب پڑتی تھی اب ٹرین کی بحالی سے زمیندار، ٹھیکیدار اور عام عوام سب خوش ہیں۔
شیر باز ترین کاکہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں اور ریلوے کے اہلکاروں اور مزدوروں نے ریلوے پٹڑی کی بحالی کے لیے قربانیاں دیں اس لیے عوام اس ٹریک کی حفاظت میں ان کا ساتھ دیں۔

رواں سال اگست میں بھی نامعلوم تخریب کاروں نے اس ریلوے ٹریک پر دھماکا کیا تھا۔ (فوٹو: ارد نیوز)

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہرنائی سے خوست تک 39 کلومیٹر سیکشن کو بھی جلد بحال کیا جائے۔

سبی ہرنائی ریلوے لائن جسے بچھانے میں انگریزوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا

ریلوے کی تاریخ پر لکھنے والوں کے مطابق اس ریلوے لائن کی تعمیر میں بھی اس وقت کی انگریز حکومت کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریز حکومت نے 1880 میں سندھ سے سبی تک 132 میل (212) کلومیٹر ریلوے لائن صرف 101 دنوں میں بچھائی تاہم سبی سے ہرنائی کے راستے بوستان تک ریلوے لائن بچھانے میں 30 ماہ کا طویل عرصہ لگا۔
مصنفین کے مطابق روسی افواج کی افغانستان کی جانب پیشقدمی روکنے کے لیے برطانوی حکومت اس ریلوے لائن کو جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتی تھی تاہم انہیں قبائل کے حملوں، بیماریوں اور موسمی سختیوں سمیت بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ریلوے لائن کو سندھ پشین ریلوے اور قندھار سٹیٹ ریلوے کہا جاتا تھا جو دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں سرنگوں اور ندی نالوں اور دریاؤں پر پل بناکر گزاری گئی۔
یہ کوئٹہ کو ہندوستان سے جوڑنے والی پہلی ریلوے لائن تھی جس پر 1884 میں اس وقت کی انگریز حکومت نے کام شروع کیا تھا اور اسی راستے سے پہلا ریلوے انجن ہرنائی کے راستے27 مارچ 1887 کو کوئٹہ پہنچا۔
معروف براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی اپنی کتاب ’ریل کہانی‘ میں لکھتے ہیں کہ 'انجینئروں نے درہ بولان کے بجائے ہرنائی کی طرف لائن ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ اس راہ میں ایک اور دشواری اپنا جال بچھائے بیٹھی ہے اور وہ تھے ہر آتے جاتے کو لوٹنے والے قبائل۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ایک بار تو یہ ہوا کہ مزدوروں کی حفاظت کرنے والی فوج نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے اور چلتی بنی۔ نتیجہ یہ ہوا کام رک گیا۔اسی علاقے میں قبائل نے افغانستان سے آنے والے ایک فوجی قافلے پر حملہ کرکے 42 آدمی مار ڈالے اور سوا لاکھ روپے کا خزانہ لے گئے۔ یہی ایک پل کا نام قتل عام رکھ دیا گیا تھا۔‘

سبی ہرنائی ریلوے کے پلوں اور ریلوے سٹیشنوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا کام نیشنل لاجسٹک سیل  نے کیا۔ (فوٹو: این ایل سی)

 مصنف نور خان محمد حسنی نے 'گریٹ گیم اور بلوچستان کا ریلوے نظام' کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ اوژدہ پشہ، خوست کے علاقے میں کمانڈینٹ بلوچ گائیڈ ( لیویز)، کیپٹن شاور کو قبائلی رہنما، فیض محمد پانیزئی اور دمڑوں نے قتل کر دیا تھا۔
رضا علی عابدی نے لکھا ہے کہ قبائلیوں نے مست فقیر کی قیادت میں سناری سٹیشن پر حملہ کیا اور یورپین انسپکٹر اور مسلم سٹیشن ماسٹر سمیت سات آدمیوں کو مار ڈالا۔
اگلے روز انہوں نے چار ہندو مار ڈالے۔ انگریز حکومت نے مست فقیر سمیت حملوں میں ملوث کئی افراد کو پکڑ کر سزائیں دیں اور ریلوے لائن کے قریب اسلحہ لے کر چلنے پر بھی پابندی لگا دی۔
مصنف شاہ محمد مری کے مطابق نائنا سوائڈلر نے سبی گزیٹیئر میں لکھا ہے کہ ’1890ء کی دہائی میں مری قبائل کے افراد نے کئی ریلوے ملازمین کو قتل کیا جس کے جرم میں چھ قبائلیوں پر مقدمہ چلا اور پھانسی لگادی گئی۔‘
ریلوے لائن کی تعمیر میں ایک وقت میں پانچ ہزار اونٹ، 10 سے 15 ہزار مزدور حصّہ لے رہے تھے۔ اس دوران حادثات کے علاوہ ہیضے اور ملیریا سمیت دیگر بیماریوں کی وجہ سے تقریباً 2 ہزار اموات واقع ہوئیں جس کی وجہ سے کام تعطل کا شکار رہتا۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کتاب 'ڈیڑھ صدی کی ریل 'کے مصنف ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کے مطابق یہ ریلوے لائن بچھانا بڑا چیلنج تھا جس کو کرنل جیمس براؤن جن کو بعد میں سر کا خطاب بھی دیا گیا نے قبول کیا۔

پلوں اور ریلوے سٹیشنوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش این ایل سی نے اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے کیا۔ (فوٹو: این ایل سی)

’اس ریلوے  کو بچھانے میں انگریزوں کو بہت مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ قبائلیوں نے ان پر کئی حملے کئے جس میں کیپٹن رینک کا افسر بھی مارا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مزدوروں کی حفاظت کرنے والی فوج بھی بھاگ گئی۔‘
اسی ریلوے لائن پر چھپر رفٹ کے مقام پر سنگلاخ پہاڑی علاقے میں پل بھی بنایا گیا جو دریا سے 220 فٹ بلند تھا۔ اس پل کو اس وقت ’دنیا کا عجوبہ‘ قرار دیا گیا۔ اس پل کو دو سرنگوں کے بیچ ایک پہاڑی کٹاؤ میں بنایا گیا تھا۔
جنوری 1887 میں شاہی جوڑے نے اپنی کوئٹہ آمد کے موقع پر چھپر رِفٹ پُل کا افتتاح کیا۔ افتتاح کے بعد اس پُل کو ڈیوک کی بیگم مارگریٹ لیوس کے نام سے موسوم کردیا گیا تاہم یہ ہمیشہ چھپر رفٹ کے نام سے ہی جانا گیا۔ پرنس آف ویلز نے بھی 1922ء میں اس پُل کا دورہ کیا۔
11 جولائی 1942 کو شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے چھپر رِفٹ پُل ٹوٹ گیا اور پھر دوبارہ اسے تعمیر نہیں کیا گیا۔اس کے بعد سبی ہرنائی سیکشن خوست تک محدود ہوگیا۔
 

شیئر: