Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں نگراں حکومت اور اختر مینگل آمنے سامنے، تنازع کیا ہے؟

نگراں حکومت نے اختر مینگل کو ’مسلح جتھے کا سربراہ‘ قرار دیا ہے (فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان میں نگراں حکومت اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل آمنے سامنے آگئے ہیں۔ نگراں وزراء، سرکار کے حامی افراد اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رہنما ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات داغ رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل نے نگراں حکومت کو ’مارشل لاء‘ اور ’گورگن‘ کے ناموں سے پکارتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کی ہے، ساتھ ہی ان کی جماعت نے احتجاجی تحریک بھی شروع کر رکھی ہے۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد بی این پی نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کیا ہے اور اس احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں 30 اکتوبر کو اسلام آباد میں پارٹی کے موجودہ اور سابق پارلیمنٹرینز دھرنا دیں گے۔
نگراں حکومت نے اختر مینگل پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ’مسلح جتھے کا سربراہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ذاتی معاملے پر سیاست کررہے ہیں۔ 
تجزیہ کاروں کے مطابق نگراں حکومت اوربلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان اس تناؤ کی بنیادی وجہ سردار اختر مینگل کے آبائی علاقے وڈھ کی صورتحال ہے جہاں سابق وزیراعلیٰ اور ان کے مخالف شفیق الرحمان مینگل کے درمیان تقریباً مسلسل دو ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی رکوانے کے لیے گزشتہ ہفتے حکومت نے بھاری فورسز بھیجیں۔ 
تاہم بی این پی کا مؤقف ہے کہ انہیں لاپتہ افراد اور بلوچستان کے مسائل پر آواز اُٹھانے کی سزا دی جارہی ہے اور وڈھ کا تنازع صرف ایک بہانہ ہے۔ 
وڈھ میں سردار اختر مینگل اور شفیق الرحمان کے حامی افراد کے درمیان جنگ میں مخالفین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور انھوں نے مبینہ طور پر بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جس میں کم از کم سات افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد بی این پی نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کیا ہے (فوٹو: بی این پی)

کوئٹہ سے تقریباً 360 کلومیٹر دور کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ پر واقع خضدار کی تحصیل وڈھ کا بازار بھی دو ماہ سے بند تھا اور ہزاروں افراد گھروں میں محصور تھے۔ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی مصروف شاہراہ پر بھی روزانہ گھنٹوں تک بند رہتی ہے۔
قبائلی اور سرکاری سطح پر صلح کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد 11 اکتوبر کو فریقین سےمورچے خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
12 اکتوبر کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں صوبائی وزیر داخلہ کیپٹن ریٹائرڈ زبیر احمد جمالی نے چار روز میں مورچے خالی نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
چار روز کی مدت پوری ہونے کے بعد حکومت نے تربت اور ژوب کے ضلعی پولیس سربراہان سمیت ایس پی اور ڈی ایس پی رینک کے 9 افسران کو سینکڑوں پولیس اور ایف سی اہلکاروں کے ہمراہ وڈھ بھیجا۔ 
سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس کارروائی کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے ہمارے مورچے تو خالی کرا دیے مگر مخالف فریق کے مورچے اب تک برقرار ہیں۔‘
بی این پی نے وڈھ کی صورتحال کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ 
اس احتجاجی تحریک کے آغاز کے بعد حکومت اور بی این پی کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ تجزیہ کار جلال نورزئی سمجھتے ہیں کہ نگراں حکومت کی جانب سے بی این پی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سمیت بعض اقدامات، سردار اختر مینگل اور بی این پی کے رہنماؤں اور حکومتی عہدے داروں کے درمیان بیان بازی کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل بنیادی طور پر خفا وڈھ کی صورتحال پر ہی ہیں لیکن معلوم نہیں کہ نگراں حکومت کیوں اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کے پاس دو آپشنز تھے ثالثی سے مسئلہ حل کرتے یا پھر دونوں قبائل کو نیوٹرل کرنے کے لیے فورس بھیجتے تاہم حکومت نے دوسرا آپشن استعمال کیا۔ جب فورسز چلی گئیں تو اس سے بی این پی کے سربراہ اور علاقے کے سردار کو ایسا محسوس ہو اکہ ان کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا۔ 
اتوار کو سردار اختر مینگل نے اپنے آبائی علاقے وڈھ سے لانگ مارچ نکالا جو خضدار، سوراب، قلات ، منگچر اور مستونگ سے ہوتا ہواکوئٹہ پہنچا ۔ لانگ مارچ میں سینکڑوں گاڑیاں شریک تھیں۔ 
بی این پی کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور اتوار کی رات کو جب مارچ کے شرکاء کوئٹہ پہنچے تو ایوب سٹیڈیم کے دروازے بھی بند کردیے گئے جہاں جلسہ ہونا تھا۔ 

سردار اختر مینگل کا موقف ہے کہ ’حکومت نے ہمارے مورچے تو خالی کرا دیے مگر مخالف فریق کے مورچے اب تک برقرار ہیں۔‘ (فوٹو: بی این پی)

سردار اختر مینگل نے جلسے میں کیا کہا؟ 
ایوب سٹیڈیم میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے الزام لگایا کہ ’نگراں حکومت وڈھ میں دہشتگرد گروہ کی پشت پناہی کررہی ہے جب ہم نے اس گروہ کو گردن سے پکڑا تو حکومت اسے بچانے آ گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وڈھ کی جنگ کسی قبیلے یا میری ذات کی نہیں بلکہ اس کو بنیاد بناکر ہمیں اسمبلی کے اندر اور باہر بلوچستان میں ظلم و زیادتیوں اور لاپتہ افراد کے ذمہ داروں کا نام لینے کی سزا دی جا رہی ہے۔ 
بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ نے کہا کہ آپ جلسہ نہ کریں خطرہ ہے، میں نے کہا کہ کس سے خطرہ ہے؟ طالبان ، داعش یا بلوچ سرمچاروں کا میں نے کیا بگاڑا ہے جو مجھے ماریں؟‘
اختر مینگل نے کہا کہ ’ہمارے خلاف مشرف دور کے کیسز کھلونے کی کوشش کی جارہی ہے موجودہ نگراں حکومت اور مشرف حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔‘
انہون نے مزید کہا کہ بی این پی کے کسی رہنماء یا کارکن کو کچھ ہوا تو نگراں وزیراعظم، نگراں وزیرداخلہ ، نگراں حکومت اور ان کو لانے والے ذمہ دار ہوں گے۔ 
حکومت کا مؤقف کیا ہے؟
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے سٹیڈیم کے دروازے بند کرنے اور لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پورے راستے میں لانگ مارچ کو سکیورٹی فراہم کی گئی۔ 
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی سمیت حکومتی عہدے داروں نے لانگ مارچ کو بلا جواز قرار دیا۔ پیر کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران جان اچکزئی نے اختر مینگل پر سخت تنقید کی اور انہیں لشکر بلوچستان نامی مسلح جتھے کا سربراہ قرار دیا۔ 
جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’یہ تنازع زمین کا ہے ہم نے ثالثی کی پیشکش کی مگر مینگل صاحب کے لوگ ہی نہیں آئے لہٰذا یہ ووٹ لینے کی سیاست ہوسکتی ہے۔‘
ان کے بقول ’کوئی اس تنازع کو سیاسی بنانا چاہیے تو بے شک بنائے مگر حکومت امن وامان کی کسی صورتحال جس میں قومی شاہراہوں کی بندش اور کوئٹہ میں دفعہ144کی خلاف ورزی ہوگی کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
نگراں صوبائی وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی نے بھی اخترمینگل پر تنقید کی ہے اور کہا کہ ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے لانگ مارچ کیا جا رہا ہے۔ 
تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق باقی جماعتوں کو اجتماعات کی اجازت دینے اور بی این پی کو روکنے اور صرف ان کے رہنماؤں کے خلاف دفعہ 144 کا استعمال صرف بی این پی کے الزاما ت نہیں بلکہ صحافیوں کا بھی مشاہدہ ہے۔
’ان اقدامات سے بی این پی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں روکا جارہا ہے اور نگراں حکومت کی غیر جانبداری پر بھی سوال اُٹھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر جماعت کو انتخابی مہم کے لیے کوئی نہ کوئی ایشو یا نعرہ چاہیے ہوتا ہے اگر سرکار سمجھتی ہے کہ بی این پی وڈھ کے مسئلے مسئلے کو انتخابی مہم کے لئے استعمال کررہی ہے تو اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔
تاہم رشید بلوچ کی رائے میں سرداراختر مینگل کو قومی لیڈر اور ایک جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے وڈھ کے تنازع کو اپنی برابری کی سطح پر نہیں لانا چاہیے تھا۔

بی این پی کا مؤقف ہے کہ انہیں لاپتہ افراد اور بلوچستان کے مسائل پر آواز اُٹھانے کی سزا دی جارہی ہے (فوٹو: پی پی آئی)

تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق اخترمینگل نے پچھلے پانچ سالوں کے دوران اپنے رویے میں لچک دکھائی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنانے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنانے اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اختر مینگل اور ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی مزاج کے مطابق چلی۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات ماننا ہوگی کہ بی این پی بلوچستان کی ایک بڑی قوم پرست جماعت ہے جس کا  صوبے کے بلوچ اضلاع میں اثر و رسوخ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ نبھا کے رکھی جائے مگر یہاں پالیسیاں نامعلوم طور بگاڑ کی بنیاد پر چلائی جارہی ہیں۔‘
جلال نورزئی کے مطابق ایسے میں جب پورے ملک میں کوئی سیاسی جماعت مزاحمت کی راہ پر نہیں چل رہی تو پھر سوچنا چاہیے کہ بی این پی کو کیوں اس راستے پر چلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ بی این پی کی پانچ سالہ پارلیمانی کارکردگی کو خود بلوچ عوام نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ اب جو پالیسیاں لاگو کی جارہی ہیں اس کے نتیجے میں لا محالہ سردار اختر مینگل کی جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ 
سردار اختر مینگل اس سے قبل بھی مشکلات کا سامنا کرچکے ہیں۔ پرویز مشرف کی حکومت میں نومبر 2006ء میں لشکر بلوچستان کے نام سے گوادر سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کے دوران انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ ڈیڑھ سال تک کراچی میں قید رہنے کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد انہیں رہائی ملی۔ 
اس کے بعد وہ  پونے چار سال تک خود ساختہ جلاوطن بھی رہے اور اپریل 2013ء میں وطن واپس آئے۔ 
اختر مینگل اور شفیق مینگل کون ہیں؟ ان کے درمیان تنازع کیسے شروع ہوا؟ 
سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں جو 2018ء عام انتخابات میں بی اے پی اور جے یو آئی کے بعد صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت رہی۔ اختر مینگل خود اور ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور کئی بار صوبائی و قومی اسمبلیوں کے رکن رہ چکے ہیں ۔ 
شفیق الرحمان مینگل بھی با اثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مشرف دور میں وڈھ کے تحصیل ناظم رہےجبکہ ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ 
مینگل قبیلے کےان دو خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے رسہ کشی چلی آ رہی ہے تاہم اس میں شدت 20 سال قبل پرویز مشرف کے دور میں دیکھی گئی جب پہلی بار سردار اختر مینگل اور میر شفیق مینگل کے حامی زمین کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے تھے۔ اس وقت قبائلی عمائدین کی مداخلت کی وجہ سے معاملہ تصادم تک نہیں پہنچا۔ 
2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011ء جب کوئٹہ میں  شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا۔ 
سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل خود اور ان کے حامی ایک دوسرے پر ڈیٹھ سکواڈ چلانے، قتل، اغوا اور بھتہ خوری کا الزام لگاتے ہیں۔ 
بی این پی کا مؤقف ہے کہ 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد جب حالات بگڑے تو حکومت بلوچ مسلح تنظیموں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے شفیق مینگل کو استعمال کیا  اوران کا مسلح جتھہ لوگوں کو لاپتہ، اغوا اور قتل اور بم دھماکوں جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ 
جبکہ شفیق مینگل اپنے مخالف سردار اختر مینگل اور ان کے جلا وطن بھائی جاوید مینگل نے لشکر بلوچستان کے نام سے مسلح تنظیم بنانے، انڈیا سے فنڈز لینے اور اس تنظیم کی مدد سے لوگوں کی زمینوں پر قبضے، بھتہ خوری، اغوا اور قتل کی وارداتیں کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ 

شیئر: