بنگلہ دیش کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادی حالیہ مہنیوں کے دوران وزی اعظم حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حسینہ واجد مستعفی ہو کر حکومت غیرجانبدار نگراں حکومت کے سپرد کریں اور اس کی زیرنگرانی انتخابات ہو۔
حسینہ واجد کے 15 سالہ دور ااقتدار میں بنگلہ دیش نے معاشی طور پر بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن ان پر ملک کو جابرانہ طریقے سے چلانے کا الزام ہے۔
امریکہ نے بنگلہ دیش کے سرکردہ پولیس افسران پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندیاں لگائی ہیں۔
گذشتہ سنیچر کو ایک لاکھ سے زائد اپوزیشن کارکنان ڈھاکہ کے مرکزی علاقے میں ریلی کے لیے جمع ہو گئے تھے جس کے دوران مظاہرین کے ساتھ جھڑپ میں ایک پولیس آفیسر ہلاک ہو گیا تھا۔
اس کے بعد سے پولیس نے بی این پی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور بی این پی کے صف اول کے 162 رہنماؤں پر پولیس آفیسر کے قتل کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔
اپوزیشن کی ہڑتال کے سبب شہریوں کے درمیان ٹریفک معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ملک کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار ’پروتھم آلو‘ نے اپنے نمائندگان کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ملک بھر سے اپوزیشن کے سات ہزار 835 ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس کے مرکزی ترجمان عبیر صدیق گرفتار افراد کی کل تعداد اے ایف پی کو نہیں بتا سکے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو بھی گرفتار ہوئے ہیں ان کے خلاف کریمنل کیسز اور وارنٹ گرفتاری تھے۔
’صیحح تعداد بتانا ممکن نہیں ہے۔ پولیس اپنا معمول کا کام کر رہی ہے۔‘
قبل ازیں ڈھاکہ پولیس نے کہا تھا کہ اس نے 21 سو افراد کو تشدد میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا ہے۔
بی این پی کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں پارٹی کے سرکردہ رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر اور ان کے نائب عامر خسرو محمود چوہدری بھی شامل ہیں۔
اتوار کو پولیس کے ریپڈ ایکشن بٹالین نے بی این پی کے نائب صدر، سابق وزیر داخلہ اور ایئر چیف الطاف حسین چوہدری کو بھی گرفتار کیا۔
مذکورہ گرفتاری اس وقت سامنے آئی جب بی این پی نے 48 گھنٹے کی ایک اور پہیہ جام ہڑتال کر رہی ہے جس کے سبب شہریوں کے درمیان ٹریفک (بسیں اور دوسری گاڑیاں) معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان کے مطابق سنیچر کو 11 بسوں کو آگ لگا دی گئی۔
بی این پی کے مطابق اب تک ان کے نو کارکنان مارے گئے ہیں جبکہ تین ہزار زخمی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پولیس کا کہنا ہے گذشتہ سنیچر کے پرتشدد احتجاج کے بعد سے اب تک پولیس افسر سمت چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم بی این پی کے مطابق ان کے نو کارکنان مارے گئے ہیں جبکہ تین ہزار زخمی ہیں۔
اپوزیشن گذشتہ برس ستمبر سے حسینہ واجد پر استعفے کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کرپشن کیس میں رہائی کے بعد سے عملاً گھر پر نظربند ہیں۔
بنگلہ دیش کی پارلیمان پر حسینہ واجد کی عوامی لیگ کا مکمل کنٹرول ہے اور وہ اسے ربڑ سٹمپ کی طرح چلا رہی ہیں۔
حسینہ واجد کی حکومت میں سکیورٹی فورسز پر لاکھوں لوگوں کو گرفتار کرنے، سیکنڑوں اپوزیشن ورکرز کو ماورائے عدالت ہلاک کرنے اور سینکڑوں لیڈروں اور حامیوں کو لاپتہ کرنے کا الزام ہے۔