Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کلکتہ کا ہیرو‘ جس نے اپنی بھڑاس میدان میں نکالی اور پاکستان کو فتح دلائی

سلیم ملک کو کلکتہ کا ہیرو کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
ون ڈے کرکٹ میں بہت تیزی سے رنز بنانا اب کوئی خبر نہیں۔ ایک زمانے میں یہ بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ ہدف کے تعاقب میں جارحانہ انداز اختیار کرکے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرنے سے بلے باز کی شان اور بھی بڑھ جاتی۔
اپنی دھواں دھار بیٹنگ سے پاکستان کو ایک یادگار فتح سلیم ملک نے دلائی تھی جس کی یاد میڈیا میں 11 نومبر کو انگلینڈ کے خلاف کلکتہ میں میچ کی بار بار تکرار سے آئی ہے۔
سلیم ملک کو کلکتہ کا ہیرو کہا جاتا ہے۔ 1987 میں انہوں نے اس میدان میں  ناممکن کو ممکن بنایا۔ 90 ہزار سے زیادہ تماشائیوں کے سامنے 36 گیندوں پر ناقابل شکست 72 رنز بنائے۔ 200 کے سٹرائیک ریٹ سے۔
یہ عجیب میچ تھا جس میں دونوں ٹیموں کے کپتانوں کی چالیں ناکام لیکن سلیم ملک کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ اصل میں یہ ان کا دن تھا۔
40 اوور کے میچ میں انڈیا نے پہلے بیٹنگ کی۔ 238 رنز بنائے۔ سری کانت نے 103 گیندوں پر 123 رنز کیے۔ پاکستان کو اننگز کے آغاز سے ہی چھ رنز کی اوسط سے سکور بنانا تھا۔ ون ڈے میں یہ کام جدید دور میں بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔
سلیم ملک وکٹ پر آئے تو پاکستان کو 78 رنز درکار تھے۔ انہوں نے منندر سنگھ کی گیند پر چوکے سے کھاتہ کھول کر عزائم کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ساری جنگ تنِ تنہا لڑی۔ ان کے سامنے عمران خان دو، وسیم اکرم تین اور سلیم یوسف صفر پر آوٹ ہوئے۔ آخری اوور کی تیسری گیند پر سلیم ملک کے چوکے سے پاکستان نے دو وکٹوں سے میچ اپنے نام کیا تو وہ 72رنز بنا چکے تھے۔
ان کے ساتھی مدثر نذر ایک رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔ آخری چھ اووروں میں پاکستان نے 65 رنز بٹورے۔ سلیم ملک نے اننگز میں 11 چوکے اور ایک چھکا لگایا۔
انڈین ٹیم اور تماشائیوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ انڈین بولر پاکستانی بلے باز کے سامنے بے بس نظر آئے۔ انڈین ٹیم سلیم ملک کے کریز پر آنے سے پہلے میچ پر حاوی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ زمین اس کے پیروں تلے سے سرکنے لگی اور پاکستان نے ایک ناقابل یقین فتح حاصل کر لی۔
سٹیڈیم میں عمران خان کے آؤٹ ہونے کے بعد جشن کا سماں تھا لیکن سلیم ملک نے انڈین تماشائیوں کی شادمانی کو غمگینی میں بدل دیا۔

سلیم ملک کا شمار نمایاں بیٹسمین میں ہوتا تھا۔ (فائل فوٹو)

 اس میچ میں پاکستان نے بیٹنگ میں کئی تجربے کیے۔ 39 سال کی عمر میں یونس احمد نے ون ڈے کریئیر کا آغاز کیا۔ عبدالقادر چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے۔ ان کے بعد منظور الٰہی اور عمران خان کی باری آئی۔ تینوں نے بالترتیب 9، 14 اور دو رنز بنائے۔ سلیم ملک کے سامنے وکٹ گنوانے والے کھلاڑیوں  کے ’بھاری‘ سکور کے بارے میں آپ اوپر پڑھ ہی چکے ہیں۔
سلیم ملک کو ساتویں نمبر پر بیٹنگ کی زحمت دی گئی۔ یہ ان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ اس بات کا انہیں غصہ بہت تھا۔ اپنی بھڑاس انہوں نے میدان میں جا کر نکالی۔ اہلیت ثابت کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔
شمیے داس گپتا نے  نے کرک انفو پر 2020 میں اپنے مضمون Ten greatest India-Pakistan ODIs میں کلکتہ کے مذکورہ میچ کو فہرست میں شامل کیا اور  سلیم ملک کی اننگز کو بہت زیادہ سراہا۔
سلیم ملک نے پھر کبھی ایسی اننگز نہیں کھیلی  لیکن کلکتہ ہی میں ان کی ایک اور اہم اننگز کا یہاں تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔
1989 میں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے کی مناسبت سے انڈین کرکٹ بورڈ نے نہرو کپ کروایا۔ نہرو کے نواسے راجیو گاندھی انڈیا کے وزیر اعظم تھے، اس لیے ٹورنامنٹ کی ایک سیاسی جہت بھی تھی۔ نہرو کپ میں نیوزی لینڈ کے علاوہ ٹیسٹ کھیلنے والی تمام ٹیموں نے حصہ لیا۔
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان کلکتہ میں فائنل ہوا۔ ویسٹ انڈیز نے 273 رنز بنائے۔ اوپنر ڈیسمنڈ ہینز نے سنچری کی۔ 34 سال پہلے اور وہ بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف مطلوبہ ہدف آسان نہ تھا۔ حریف ٹیم میں مارشل، کورٹنی والش اور کرٹلی امبروز جیسے تگڑے فاسٹ بولر تھے۔ اس پر مستزاد فائنل کا دباؤ۔ اس میچ میں بھی کھٹن مرحلے پر سلیم ملک نے عمدہ بیٹنگ کی اور  پاکستان کو میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 62 گیندوں پر 71 رنز بنائے۔ 114.51 کے سٹرائیک ریٹ سے۔

سلیم ملک نے 1982 میں ڈیبیو کیا تھا۔ (فوٹو: اےا یف پی)

عمران خان اور سلیم ملک کی 95 گیندوں پر 93 رنز کی شراکت داری ٹیم کو کامیابی کے نزدیک لے آئی۔ پاکستان کو جیت کے لیے دو گیندوں پر تین رنز چاہیے تھے تو  وسیم اکرم نے  ویوین رچرڈز کی گیند باؤنڈری لائن سے باہر پھینک کر پاکستان کو یادگار فتح دلا دی۔ تین وکٹیں اور 55 رنز(ناٹ آؤٹ) بنانے پر عمران خان مین آف دی میچ ٹھہرے۔ ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی بھی انھی کو قرار دیا گیا۔
کلکتہ سے ہٹ کر اس مضمون کا موضوع سلیم ملک کی جارحانہ بیٹنگ بھی ہے تو  یہ بتادیں کہ انہوں نے ناگپور میں نہرو کپ کے سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف 41 گیندوں پر 66 رنز بنائے۔ تین چھکوں اور چھ چوکوں کی مدد سے۔ 160.97 کے سٹرائیک ریٹ سے۔
سوچنے کی بات  ہے کہ 80 کی دہائی کے آخر میں انڈین وکٹوں پر سلیم ملک جس انداز میں بیٹنگ کر رہے تھے اس انداز میں آج کے پاکستانی بلے باز بیٹنگ کرنے میں ناکام کیوں ہوتے ہیں؟ سلیم ملک کی جن تین اننگز کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان کی خاص بات یہ ہے کہ تینوں مرتبہ ٹیم مشکل میں تھی اور ہدف کا تعاقب کر رہی تھی۔ ہر دفعہ انہوں نے ٹیم کی ضرورت کے مطابق بڑی تیزی سے رنز بنائے۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک زمانے میں ہمارے  بلے باز اپنے زمانے سے آگے تھے، ون ڈے میں سلیم ملک سے پہلے ظہیر عباس اور بعد میں سعید انور دو  ایسے ہی بیٹسمین تھے اور اب یہ حال کہ ہمارے بیٹر وقت سے آگے تو کیا ہوں گے عصر حاضر کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتے۔

شیئر: