بہرام قتل کے لیے جو سکہ اور رومال استعمال کرتے تھے وہ ایک میوزیم میں محفوظ ہیں (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
جب ہم کسی سیریل کلر یا کلنگ کے بارے میں سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کوئی نہ کوئی پیکر اُبھرتا ہے لیکن جو لوگ پیڈرو لوپیز کی کارستانیوں سے واقف ہیں ان کے ذہن میں اسی شخص کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔
وہ اپنے وقت کا سفاک ترین قاتل تھا جو کمسن لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں مار دیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ کسی کو رچرڈ ریمیریز عرف ’دی نائٹ سٹاکر‘ کا بھی خیال آ سکتا ہے جو راتوں کو حملہ کر کے بے رحمی سے قتل کرنے کے لیے مشہور ہوا تھا اور وہ پیسے جواہرات اور کاریں چوری کرتا تھا۔
اسی طرح انڈیا میں چارلس شوبھراج ’دی بِکنی کلر‘ یا پھر لندن کے ’جیک دی ریپر‘ کا خیال آ سکتا ہے جس نے 1880 کی دہائی میں ہولناک قتل کیے تھے۔
ریپر کو ’وائٹ چیپل قاتل‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وہاں سے طوائفوں کا تقریباً خاتمہ کر دیا تھا، تاہم 150 سال گزرنے کے بعد بھی جیک دی ریپر کی شناخت کبھی نہیں ہو سکی۔
بدنام زمانہ سیریل کلرز کی یہ کہانیاں آپ کے لیے بے خوابی اور پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں اور اگر آپ کبھی ان مقامات پر ہوں تو آپ کو اپنے دروازے اور کھڑکیوں کو محفوظ طریقے سے بند کرنے اور احتیاط کے ساتھ باہر نکلنے کا خیال آ سکتا ہے۔
بہرحال کوئی بھی ملک یا خطہ اس قسم کے نفسیاتی قاتلوں سے پاک نہیں رہا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہےکہ زوڈیک، جان وین گیسی یا ریمیریز خوفناک تھا اور اس نے بہت سے قتل کیے تھے تو آئیے آپ کو ایک ایسے بدنام زمانہ قاتل کے بارے میں بتاتے ہیں جس نے 1800 کی دہائی میں 900 سے زیادہ قتل کیے اور ایک عرصے تک ہندوستان کو دہشت زدہ کیے رکھا۔
پاپ کلچر اور مشہور تھیوریوں کی وجہ سے ہم بہت سے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن زیادہ تر لوگ 930 سے زیادہ افراد کے قتل کے ذمہ دار ٹھگ بہرام یا ’رومال قاتل‘ کے بارے میں کم ہی جانتے ہوں گے۔ بہت سے اعدادوشمار کے مطابق ان کے نام ہی یہ بدنما ریکارڈ ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ قتل کیے۔
ٹھگ بہرام کو بہت سے لوگوں نے ’ٹھگوں کا بادشاہ‘ کہا ہے۔ وہ شمالی وسطی ہندوستان یعنی اس زمانے کے اودھ کے علاقے میں قاتلوں کے ایک گروہ کی قیادت کیا کرتے تھے اور 18 ویں اور 19 ویں صدی میں سرگرم تھے۔ انہیں اکثر دنیا کا سب سے خطرناک سیریل کلر سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ مبینہ طور پر 931 افراد کے قتل میں ملوث تھے۔
بہرام جب مخصوص الفاظ کا استعمال کرتے تو اُن کے گروہ کے افراد مسافروں پر حملہ کر دیتے (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
ہندی روزنامہ امر اجالا کی ایک رپورٹ کے مطابق اودھ کے علاقے میں 1790 سے 1840 کے درمیان 50 سال کے عرصے کے دوران وہ اور اُن کے گروہ کے ارکان رومال سے گلا دبا کر لوگوں کی جان لیا کرتے تھے۔
تاہم سرکاری طور پر اُن کے ہاتھوں صرف 125 افراد کے قتل کی تصدیق کی گئی جبکہ اُن کے زمانے اور بعد کے بہت سے لوگوں کے مطابق ٹھگ بہرام نے بے رحمی سے ایک ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا تھا۔
ایک سادہ پیلے رومال نے سینکڑوں جانیں لیں
بہرام نے اس وقت برطانوی حکمران کے لیے ایک چیلنج پیدا کر دیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستانیوں کو بلکہ انگریزوں کو بھی خوفزدہ کر دیا تھا۔ اس وقت جیمز پیٹن کو ڈاکوؤں اور ٹھگوں کی نگرانی کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور ان کو محکمے کا انچارج بنایا گیا تھا۔
ایک انگریز افسر فلپ میڈوز ٹیلر نے ’اے کنفیشن آف اے ٹھگ‘ نامی ایک کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جیمز پیٹن کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ انہوں نے ایک بار ٹھگ بہرام کے بارے میں اپنے روزنامچے میں لکھا تھا کہ ’وہ (برہم) 931 افراد کے قتل میں ملوث تھا اور اس نے بعد میں اس کا اعتراف کیا تھا۔‘
ٹھگی ان کے لیے کسی پیشے سے کم نہ تھا اور اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کر رکھے تھے اور ایک طرح سے یہ ان کا دین و مذہب تھا۔
بہرام اور ان کے گروہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد بھی شامل تھے لیکن وہ سارے شکار پر جانے سے پہلے ہندوؤں کی دیوی کالی کی پُوجا کرتے تھے اور شکار یا قتل کے بعد دیوی کالی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بھی پُوجا کرتے تھے۔
ایک انگریز افسر نے ’اے کنفیشن آف اے ٹھگ‘ نامی ایک کتاب میں ٹھگ بہرام کے بارے میں ذکر کیا (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
اپنے وضع کردہ اصولوں کے تحت وہ عورتوں، فقیروں اور بچوں پر حملہ نہیں کرتے تھے اور ان کے لیے اولین شرط بغیر خون بہائے قتل کرنا تھی۔ وہ اس وقت تک کسی مسافر پر حملہ نہیں کرتے جب تک اس سے کچھ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔
وہ پراسرار طریقے سے تاجروں، زائرین اور سیاحوں پر حملہ کرنے اور ان کو قتل کرنے کے طریقے تلاش کرتے۔ ٹھگوں میں کچھ مخصوص صلاحیتیں تھیں اور وہ کسی بھی قافلے میں اپنے ہُنر سے گُھل مِل جاتے تھے۔
انہیں موسیقی کا گیان تھا، رقص کرنا آتا تھا اور الگ الگ مذہب کے رواجوں سے بھی واقف تھے جس وجہ سے مسافروں سے دوستی کرنا ان کے لیے آسان تھا۔ پھر رات گئے اپنے شکار کو بے خبر پا کر وہ رومال سے اس کا گلا گھونٹ دیتے تھے۔ اس رومال میں ایک سکہ بھی بندھا ہوتا تھا جو شاید شہ رگ کو دباتا تھا۔
قتل کرنے کا طریقہ
’کنفیشن آف اے ٹھگ‘ میں سید امیر علی نامی ٹھگ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بہرام 200 ٹھگوں کا سردار تھا اور انہوں نے گروہ کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک وہ جو قافلے کے پیچھے کچھ فاصلے پر چلتا دوسرا مسافروں کے قافلے سے شناسائی کرتا اور ان کے ساتھ چلتا۔
تیسرا حصہ آگے پہنچ کر قبر بناتا اور جب ان کو محسوس ہوتا کہ اب حملہ کرنے کا وقت آگیا ہے تو وہ کسی کوڈ ورڈ کے تحت اشارہ کرتے یا کسی نام کو باربار دہراتے جس سے ٹھگ حملے کے لیے تیار ہو جاتے اور سردار بہرام کے جھڑنی (اشارے) کا انتظار کرتے۔
سنہ 1839 میں بہرام کو گرفتار کر لیا گیا اور انہوں نے 931 ہلاکتوں کا اعتراف کیا (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
اشاروں کے بھی کچھ نام تھے جس میں ’سرتی کھا لو‘، ’پان کھلا دو‘، ’حُقہ پلا دو‘ جیسے اشارے شامل تھے۔ بہرام جب ان الفاظ کا استعمال کرتے تو اُن کے گروہ کے افراد مسافروں پر حملہ کر دیتے اور اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بہرام کے پاس پیش کرتے۔
بہرام رومال میں بندھے سکے سے تب تک اُن کا گلا گھونٹتا رہتا جب تک اُن کی جان نہیں چلی جاتی۔ ہر قتل اور لُوٹ کے بعد سامان برابر تقسیم ہوتا تھا۔
سید امیر علی کے مطابق کچھ دنوں بعد ڈولی نام کی ایک لڑکی نے بہرام کے گروہ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد بہرام نے قتل کے انداز میں تبدیلی کی۔ اب وہ اپنے شکار کو حُقہ پلا کر منشیات سے بے ہوش کردیا کرتے تھے اور اُن کا سامان لُوٹ کر انہیں قتل کر دیتے تھے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ بہرام اور ڈولی کی لڑائی ہونے لگی جس کے بعد بہرام وہاں کے مشہور ٹھگ سید امیر علی کے ساتھ کام کرنے لگا۔
فلپ ٹیلر کے مطابق سید امیر علی نہایت خوب صورت تھا اور مقامی افراد انہیں ان کے گورے چٹے رنگ کی وجہ سے ’فرنگیا‘ کہہ کر بلاتے تھے۔
جب ہندوستان کے وسطی علاقے میں ٹھگوں کا خوف حد سے زیادہ بڑھ گیا تو حکومت برطانیہ نے ٹھگوں اور ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا جس کا نام ’اریڈیکیشن آف ٹھگز اینڈ ڈکیت‘ رکھا گیا۔
حکومت برطانیہ نے ٹھگوں اور ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
جب علاقے میں ٹھگی اور قتل کی وارداتیں روز روز ہونے لگیں اور حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو یہ خبر برطانیہ تک پہنچ گئی اور پھر حکومت نے اس کی جانچ اور تدارک کے لیے پانچ تفتیش کار بھیجے لیکن امیر علی کے مطابق بہرام نے اپنے گروہ کے ساتھ مل کر ان سب کو قتل کر ڈالا۔
سنہ 1822 کے آس پاس ایک انگریز افسر ولیم ہنری سولومن کو تحقیقات کے لیے ہندوستان بلایا گیا اور انہیں ٹھگ اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کرنے والے محکمے کا انچارج بنایا گيا۔
پھر بھی ٹھگوں کو پکڑنے کی ساری کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ اسی دوران لاڑد ولیم بینٹک کو ہندوستان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔ انہوں نے سلومن کو بہرام کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے لوگ بھرتی کرنے اور انہیں ہتھیاروں سے مسلح کرنے کا حکم دیا۔ 1834 میں بہت کوششوں اور تلاش کے بعد سید امیر علی ولیم ہنری کے ہاتھ لگ گئے۔
پھر انہوں نے پوچھ گچھ کے دوران اپنے خاندان کی حفاظت کے خوف سے بہرام کے بارے میں واضح معلومات فراہم کیں۔ سید امیر علی سے پوچھ گچھ کے دوران جب ان سے ان کے گروہ کے ہاتھوں قتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں نے اب تک 700 افراد کا قتل کیا تھا اور ہزار مکمل کرنے والا تھا کہ پکڑا گیا۔‘
ان کے اعتراف کو انگریز افسر فلپ میڈوز ٹیلر نے لکھنا شروع کیا جو 1839 میں ’کنفیشن آف اے ٹھگ‘ کے نام سے شائع ہوئی اور اس کتاب نے اس سال اینگلو انڈین بیسٹ سیلر کا ایوارڈ جیتا۔
سنہ 1834 میں بہت کوششوں اور تلاش کے بعد سید امیر علی ولیم ہنری کے ہاتھ لگ گئے (فائل فوٹو: برٹش لائبریری)
گرفتاری اور پھانسی
بالآخر 1839 میں بہرام کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد انہوں نے ولیم ہنری سے کہا کہ ’مجھے مارنا مت میں سب کچھ بتاتا ہوں‘ اور جب انہوں نے 931 ہلاکتوں کا اعتراف کیا تو پولیس بھی خوف زدہ تھی۔
پولیس نے قتل کے حساب کا سوال کیا تو جواب دیتے ہوئے بہرام نے کہا کہ ’ہر قتل کے بعد ہم آپس میں سامان تقسیم کرتے تھے اور اس وجہ سے قتل کی گنتی 931 ہے یعنی اتنی ہی مرتبہ سامان آپس میں تقسیم ہوا۔‘
بعد میں ان کی ٹیم کے ارکان کو بھی پکڑ لیا گیا۔ 1840 میں بہرام اور ان کے گینگ کو جبل پور میں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے وقت بہرام کی عمر 75 سال تھی۔
بہرام کا 931 افراد کو قتل کرنے کا گنیز ورلڈ ریکارڈ ہے، اور قتل کے لیے استعمال ہونے والے سکے کے ساتھ رومال ایک میوزیم میں محفوظ ہے۔
سید امیر علی اور بہرام کے پکڑے جانے کے بعد ولیم ہنری سے لوگ اس طرح متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے گاؤں کا نام سلیمان آباد رکھ لیا۔
ٹھگوں کو پکڑنے والے اس محکمے نے سرکار کے پاس ایک رپورٹ بھیجی جس میں 1400 ٹھگوں کے پکڑے جانے کا ذکر تھا۔ ان میں سے 1000 افراد کا گناہ ثابت نہ ہو سکا اور ان کو ملائیشیا کے ایک جزیرے پر چھوڑ دیا گیا جبکہ باقی 400 افراد کو پھانسی دے دی گئی۔