Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغل بادشاہ اکبر کو ’اکبرِ اعظم‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

اکبر اعظم نے 1556 سے 1605 تک حکومت کی۔ (فوٹو: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا)
ان دنوں انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ایک میم گردش کر رہا ہے جس میں ایک شخص کہتا ہے کہ وہ چار ہی اعظم کو جانتا ہے، سکندر اعظم، اکبر اعظم، مغل اعظم اور بابر اعظم۔ یہ چاروں نام اپنے آپ میں جانے پہچانے ہیں۔
آج سے کوئی چار سوا چار سو سال قبل یعنی 27 اکتوبر 1605 کو مغل بادشاہ اکبر کی 63 سال کی عمر میں وفات ہو گئی تھی۔ سکندر کو ان کے دنیا کو فتح کرنے کے خواب کی وجہ سے اعظم کہا جاتا ہے تاہم اکبر نے ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا لیکن پھر بھی انہیں تاریخ ’اکبر دی گریٹ‘ یا ’اکبر اعظم‘ کے نام سے جانتی ہے۔
انڈیا میں ان دنوں جہاں تمام مغل بادشاہ اور دوسرے مسلم سلاطین کے ناموں کو بدلا جا رہا ہے وہیں اکبر کے نام سے منسوب مقامات کے ناموں کو نہیں چھیڑا جا رہا۔ یہاں تک کہ گذشتہ ماہ ستمبر میں 20 بڑی معیشت والے ممالک جی20 کا جو سربراہی اجلاس دہلی میں ہوا اس موقع پر ایک کتابچہ جاری کیا گیا اور اس میں اکبر کا بطور خاص ذکر تھا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’اچھی انتظامیہ کو مذہب سے قطعِ نظر سب کی فلاح و بہبود کو اپنانا چاہیے۔ یہ وہ جمہوریت تھی جس پر تیسرے مغل بادشاہ اکبر نے عمل کیا تھا۔
اس کتابچے میں اکبر کو مذہبی امتیاز اور تعصب کے خلاف ایک آلے کے طور پر ’صُلحِ کل یعنی عالمگیر امن‘ کا نظریہ متعارف کرانے والا بتایا گیا ہے۔
اس پر کانگریس کے رہنما کپل سبل نے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت دنیا کے لیے الگ چہرہ پیش کرتی ہے اور ملک کے لیے اس کا چہرہ مختلف ہے۔
بہرحال ان سیاسی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر آئیے ہم اکبر کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں جو آج بھی حسبِ حال لگتے ہیں۔ ان کی زندگی نے ہندوستان کے سیاسی سماجی شعور کو ایک نیا آہنگ دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موت کے چار سو سال بعد بھی ان کی زندگی پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔
ان کی زندگی پر بنی فلم ’مغل اعظم‘ انڈین سنیما میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں تو اکیسویں صدی میں آنے والی فلم ’جودھا اکبر‘ ان کی مذہبی رواداری کو پیش کرنے والی ایک اہم فلم ہے جس میں اداکار ریتک روشن نے اکبر کا کردار ادا کیا ہے جبکہ ان پر ایک سیریل بھی بنی ہے جس میں ان کی زندگی کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔
تاہم اکبر کا جو کردار فلم مغل اعظم میں اداکار پرتھوی راج کپور نے ادا کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کا حقیقی پرتو بن گیا ہے۔

اکبر کو ان کی تمام جنگوں میں فتوحات حاصل ہوئی تھیں۔ (فوٹو: انڈین سکول)

ابوالفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ہمایوں کے ہندوستان سے راہِ فرار کے دوران 15 اکتوبر 1542 کو عمرکوٹ یا امرکوٹ میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اب پاکستان کے سندھ صوبے میں آتا ہے۔ بادشاہ ہمایوں کو چوسا اور قنوج کی جنگ میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کے بعد سندھ کا رُخ کرنا پڑا تھا جہاں انہوں نے حمیدہ بانو بیگم کو دیکھا اور بہت ساری کوششوں کے بعد ان سے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد دوران سفر ہی حمیدہ بانو درد زہ میں مبتلا ہوئیں اور انہیں عمرکوٹ لے جایا گیا جہاں اکبر کی ولادت ہوئی۔
بعض جگہ ان کی پیدائش 25 اکتوبر بمطابق پانچ رجب 949 ہجری بتائی گئی ہے۔ چونکہ ہمایوں کو وطن سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور ان کے بھائیوں کامران مرزا اور عسکری مرزا نے ان کا ساتھ نہیں دیا اس لیے انہیں شاہ ایران کی پناہ لینا پڑی لیکن شہزادہ اکبر کی پرورش کامران اور عسکری کی بیگمات نے کی بطور خاص کامران مرزا کی بیگم نے۔
انہوں نے اپنا بچپن شکار کرنے، دوڑنے بھاگنے اور لڑنے میں گزارا اور رسمی تعلیم کی طرف بالکل توجہ نہیں دی اور جب شام کو تھک ہار کر آتے تو کوئی انہیں کتابیں پڑھ کر سناتا تھا۔
بادشاہ بابر کے بیٹے کامران اور ہندال کے درمیان جنگ میں جب ہندال کی موت واقع ہوئی تو ہمایوں کو اپنے بھائی کی موت کا گہرا افسوس ہوا۔
بہرحال جب اکبر نو سال کے ہوئے تو انہیں غزنی کا صوبہ دار یا گورنر مقرر کیا گیا اور ہندال کی دولت اور فوج ان کی کمان میں دے دی گئی اور ان کی بیٹی سے اکبر کا رشتہ طے کر دیا گيا۔  14 سال کی عمر میں اکبر کی شادی جالندھر میں ہندال مرزا کی بیٹی رقیہ سلطان بیگم سے کر دی گئی جو ان کی پہلی بیگم بنیں۔ اس وقت دونوں کی عمر 13 یا 14 سال تھی۔
بہرحال اسی دوران ہمایوں دہلی کو دوبارہ فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ کتب خانے کی سیڑھیوں پر ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں اور دارِ فانی کو الوداع کہتے ہیں۔ اکبر کو اسی عمر میں ہندوستان کا تخت ملتا ہے جس کے والی بیرم خان ہوتے ہیں۔

فلم جودھا اکبر میں اداکار ریتک روشن نے اکبر اعظم کا کردار ادا کیا تھا۔ (فوٹو: فلم)

اکبر کو اکبر اعظم کیوں کہا جاتا ہے؟

ہر چند کہ ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد ظہیرالدین محمد بابر نے ڈالی لیکن شیر شاہ نے ان کے بیٹے ہمایوں کو ہندوستان سے بے دخل کر دیا، پھر شیر شاہ کی موت کے بعد ہمایوں دہلی کا تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن وہ اسے مستحکم کر پاتے اس سے قبل ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ایسے عالم اور صغر سنی میں اکبر عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور حکومت کو دوام بخشتے ہیں۔
عالمی شہرت کی حامل انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ان کے بارے میں لکھا گيا ہے کہ ’اس نے 1556 سے 1605 تک حکومت کی اور برصغیر پاک و ہند کے بیشتر حصوں پر مغل اقتدار کو قائم کیا۔ اپنی سلطنت کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے، اکبر نے ایسے پروگراموں کو اپنایا جس سے انہیں اپنی سلطنت میں آنے والی غیر مسلم آبادیوں کی وفاداریاں حاصل ہوئیں۔ انہوں نے اپنی مرکزی انتظامیہ کو بہتر اور مضبوط کیا اور اپنے مالیاتی نظام کو بھی مرکزی بنایا اور ٹیکس جمع کرنے کے عمل کو دوبارہ منظم کیا۔ اگرچہ انہوں نے کبھی اسلام ترک نہیں کیا، لیکن انہوں نے علما، شاعروں، مصوروں اور موسیقاروں کی حوصلہ افزائی کی، اپنے دربار کو ثقافت کا مرکز بنایا۔
اکبر نے تخت سنبھالنے کے بعد آگرے کو اپنا دارالحکومت بنایا اور پانچ سال بعد انہوں نے حکومت کی توسیع کی جو مہم شروع کی وہ آخری عمر تک جاری رہی۔ انہوں نے 1561 میں پہلے مالوا کو پھر چنار کو اپنے دائرہ اختیار میں لیا۔ اس کے بعد گونوانا اور میوار ان کے زیر نگیں آیا اور پھر مہارانا پرتاپ سنگھ کے خلاف ہلدی گھاٹی کی معروف جنگ لڑی جس نے انہیں شمالی ہندوستان میں بے شمار اختیار دیا۔ رنتھمبھور اور کالجر پر قبضے کے بعد ماڑوار کے راجا نے ان کی اطاعت قبول کی۔ 1570 میں ماڑوار کیے بعد جیسلمیر، بیکانیر، گجرات، صورت اور پاٹن کی حکومتوں نے اکبر کی اطاعت قبول کی۔

فلم مغل اعظم میں اکبر کا کردار اداکار پرتھوی راج کپور نے ادا کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

اس کے بعد اکبر نے مغرب کی جانب کابل سے لے کر سندھ تک کا علاقہ فتح کر لیا جس میں کشمیر بھی شامل تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 1591 میں مشرق کا رخ کیا اور اُڑیسہ کے ساتھ خان دیش بھی حاصل کر لیا۔
پھر مغرب کی طرف بلوچستان اور قندھار کو حاصل کر لیا اور سلطنت میں ملا لیا۔ انہوں نے جنوب میں احمدنگر کو حاصل کیا اور آخری جنگ اسیرگڑھ کی 1601 میں لڑی۔ اکبر کو ان کی تمام جنگوں میں فتوحات حاصل ہوئیں۔
اکبر نے اپنی حکومت اور اپنی فوج کا بہتر ڈھنگ سے استعمال کیا تھا اور پھر انہوں نے راجا ٹوڈرمل کی سربراہی میں محصولات کا ایک خاصا مؤثر نظام بھی قائم کیا۔ انہوں نے فن اور فن تعمیر کی بہت حوصلہ افزائی کی، چنانچہ فتح پور سیکڑی، بلند دروازہ، پنچ محل وغیرہ ان کے ذوق تعمیر کا حصہ ہیں۔ اُن ہی کے زمانے میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب راماین اور مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ ہوا اور ان کی بنیاد پر بہت ساری یادگار پیٹنگز بھی بنائی گئیں۔
اگرچہ اکبر سے زیادہ بڑے خطے اور عرصے تک اورنگزیب نے ہندوستان پر حکومت کی اور ان کے دور حکومت میں مغل سلطنت کی دولت دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی تھی، تاہم اورنگزیب عالمگیر کے نام کے ساتھ اعظم کا لاحقہ نہیں جوڑا جاتا ہے اور اس کی وجوہات تاریخ میں پنہاں ہیں جو کہ اپنے آپ میں ایک تحقیق کا موضوع ہے۔

شیئر: