Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ کا غزہ میں ’ہولناکی کے خاتمے‘ کے لیے جنگ بندی پر زور

غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز کے حملوں میں اب تک 11 ہزار 100 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں(فائل فوٹو: روئٹرز)
اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ غزہ کے فلسطینی، جن کے حقوق برسوں سے ’بڑے پیمانے پر محدود‘ ہیں، اب انہیں شدید بمباری کا سامنا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر وولکر تُرک نے جمعے کو ایک اجلاس کے دوران کہا کہ غزہ کو شہریوں کو جو صورتحال درپیش ہے، یہ ’اس صدی میں شاذ و نادر ہی سامنے آئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ ہفتوں میں غزہ میں رہنے والا ہر 57 واں شخص یا تو ہلاک ہو گیا ہے یا پھر وہ زخمی ہے۔
اقوام متحدہ کے عرب گروپ اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کی درخواست پر بلائے گئے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وولکر تُرک نے کہا کہ (غزہ میں) ’تکلیف کی سطح ناقابلِ تصور ہیں۔ وہاں کی صورتحال ایک ڈراؤنے خواب جیسی ہے۔‘
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز کے حملوں میں اب تک 11 ہزار 100 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں لگ بھگ چار ہزار600 بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 26 ہزار سے زائد ہے جبکہ دو ہزار افراد ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں کی وجہ سے غزہ کے ہسپتالوں، سکولوں، بازاروں اور بیکریوں سمیت تمام عوامی مقامات بند ہیں اور ایسی جگہوں پر بہت سے شہری پھنسے ہوئے ہیں۔
وولکر ترک نے مختلف ممالک کے سفیروں اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے سربراہوں کو بتایا کہ ’ایک بڑی آبادی گہرے نفسیاتی صدمے میں ہے اور خاص طور پر اس جنگ کے بچوں پر پڑنے والے اثرات بہت دوررس منفی نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے شمالی علاقوں سے نکل جانے کی ہدایات کے باوجود بے شمار شہری وہاں سے باہر نہیں جا سکتے کیونکہ مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ اس وقت شمالی غزہ میں ہزاروں بچے، معذور، بیمار اور زخمی افراد شمال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ان علاقوں میں بھاری شلینگ کی وجہ سے امدادی کارروائیاں بھی ممکن نہیں ہیں۔

غزہ کے شمالی علاقوں سے بے شمار شہری وہاں سے باہر نہیں جا سکتے کیونکہ مسلسل حملے ہو رہے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

انسانی حقوق کے کمشنر وولکر تُرک نے ورلڈ فوڈ پروگرام(ڈبلیو ایف پی) کو خبردار کیا کہ ’غزہ کے شہریوں کو ممکنہ طور پر قحط کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیز فائر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے نہ صرف غزہ کے شہریوں میں خوراک اور ضروری امدادی سامان پہنچانے میں مدد ملے گی بلکہ اس ہولناک صورت حال سے نکلنے کا راستہ بھی پیدا ہو گا۔‘
’اجتماعی سزا کے اس سلسلے کا خانمہ ہونا چاہیے۔ اسرائیل کی آزادی لازمی طور پر فلسطین کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی امن کے قیام کے لیے ایک دوسرے کے لیے امید بن سکتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ’یوں لگتا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کو پسِ پشت دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 41 ہزار  سے زائد ہاؤسنگ یونٹس تباہ ہو چکے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زائد افراد اندرونی طور پر بے گھر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان میں سے بہت سے لوگ حفاظت کی تلاش میں جنوب کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو دوسری بار اب مغرب کی طرف جانا پڑ رہا ہے۔‘
’اس کے باوجود ہزاروں افراد ابھی بھی شمال میں موجود ہیں جہاں شدید ترین لڑائی اور بمباری ہو رہی ہے۔‘
مارٹن گریفتھس نے مزید بتایا کہ ’شمالی غزہ میں زخمیوں اور مریضوں کی دیکھ بھال کی سہولیات نہیں ہیں۔ شمالہ غزہ کے 24 ہسپتالوں میں سے صرف ایک ’الاحلی‘ اس وقت کام کر رہا ہے۔‘
 لڑائی شروع ہونے کے بعد سے 18 ہسپتال بند اور خالی کرائے جا چکے ہیں۔

شیئر: