عمرؓکی خوراک جوکی روٹی اور کھجوروں پر مشتمل تھی ۔ ان کا مشروب پانی تھا ، نماز کی امامت کراتے وقت ان کے بدن پر ایسا جبہ ہوتا تھا جس میں ایک درجن کے قریب پیوند لگے ہوتے تھے
* * * *جاوید اقبال* * * *
بحث نے انتہائی دلچسپ رخ اختیار کر لیا تھا ۔ انسانی تاریخ میں سب سے بڑا فاتح کون ہو گزرا تھا؟ ایک آواز آئی ، چنگیز خان ، دوسری آواز آئی ، سکندر اعظم ، پھر کسی نے کہا ، نپولین بونا پارٹ اور پھر ایک اور نے دعویٰ کیا ۔ ایڈولف ہٹلر لیکن وہ سب غلط تھے ۔ چنگیز خان کے گھوڑے ایشیائے کوچک اور جنوبی میدانوں میں تو بپھرتے ہر شے کو تا خت و تاراج کرتے رہے ۔کرۂ ارض کی کسی بڑی طاقت کو توڑ نہ سکے ۔ سکندرِ اعظم مقدونیہ سے چلا اور دریائے جہلم تک پہنچتے اس کی سانس پھول گئی ۔ سپاہ یوں بددل ہوئی کہ جب واپسی پر اسکندریہ میں نوجوان یونانی جنگجو کا رشتۂ جاں ٹوٹا تو اس کا جسدِ خاکی واپس مقدونیہ لے جانے کو کوئی تیار نہ ہوا ۔اور نپولین بونا پارٹ کیسے عظیم ترین فاتح ہو سکتا ہے ؟ فرانس سے اٹھا اور ماسکو کی برفوں تک پہنچا ۔ پھر ٹوٹ پھوٹ گیا ۔
واٹر لو کی ھزیمت اس کی جنگی صلاحیتوں پر ایک بد نما داغ چھوڑ گئی ۔ سینٹ ہیلینا کے زندان میں کوئی عظیم فاتح کیوں اپنے سانس کی ڈوری توڑے گا؟ اور ایڈولف ہٹلر؟ پولینڈ اور یوگو سلادیہ جیسی مسکین ریاستوں پر تو قبضہ آسان تھا ۔ ماسکو اور لندن ڈرائونے خواب بن کر رہ گئے ۔ خودکشی اور بدن کا خاکستر ہونا نصیب میں لکھا تھا ۔ کسی بھی عظیم فاتح کا شکستِ خواب پر ایسا حشر نہیں ہوا کرتا ۔ دیوانوں کی طرح بحث میں الجھی چاروں آوازیں غلط تھیں ۔ مباحثہ کرنیوالے یورپی تھے اور ان میں سے کسی نے تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ ان میں سے کسی نے عمرابن الخطاب ؓ کے بارے میں کچھ نہیں پڑھ رکھا تھا ۔ اسی لئے ان کی گفتگو کی حدود کا آغاز یورپ سے ہوتا تھا اور اختتام بھی اسی مختصر جغرافیے میں ہی ہوتا تھا ۔ انتہائی دلکش موضوع ہے ۔ ہمارے نصاب میں تو یورپ کے ناکام جنگجوئوں کے نام شامل ہیں لیکن یورپی تعلیمی نظام میں اس عظیم انسان کا نام تک نہیں جس نے اپنے دورِ خلافت میں اپنے وقت کی دو عظیم سلطنتوں روم اور فارس کو شکستِ فا ش دے دی تھی اور خلافت کی حدود ایشیائے کوچک سے نیل کے ساحل تک اور اس سے بھی آگے شمالی افریقہ تک وسیع کر دی تھیں ۔ وہ نہ آمر تھا، نہ خود پسند تھا ، نہ سطوتِ شہنشاہی میں یقین رکھتا تھا ۔ نہ ثروت مند تھا ۔ رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے تو کیوں نہ دنیا کے عظیم ترین فاتح عمر ابن الخطاب کا ذکر ہو جائے ۔ ایک بار امیر المومنین عمرؓ ابن الخطاب اور ابی بن کعب کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ۔
ابی معاملہ قاضی زید بن ثابت کی عدالت میں لے گیا۔ عمرؓ جب عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی نے انہیں احترام دیا۔ عمرؓ کو غصہ آگیا اور بولے ’’ ملزم کا احترام کرنا کسی قاضی کے شایان ِ شان نہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدعی کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا چونکہ یہ آپ کی پہلی غلطی ہے اس لئے میں آپ کو معاف کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر عمرؓ ،ابیّ کی نشست پر ہی اس کے برابر جا بیٹھے ۔ مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوا ۔ ابیّ نے مطالبہ کیا کہ عمر ابن الخطاب سے سچ بولنے کا حلف لیا جائے ۔ قاضی نے مدعی پر زور دیا کہ وہ مدعا الیہ کی مقتدر شخصیت کا خیال رکھے اور ان کے حلف پر اصرار نہ کرے ۔ خلیفہ المسلمین کو قاضی کے رویے پر دوبارہ غصہ آگیا اور بولے اس مقدمے کا جتنے بھی منصفانہ طریقے سے فیصلہ کر سکتے ہو کرو، اس کے بعد دیکھوں گا کہ عمر اور مدعی کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کرنے پر تمہیں کیا سزا دی جائے ۔
انہی عمر ابن الخطاب کے عہدِ خلافت کا واقعہ ہے ۔ یروشلم فتح ہوا تو امیر المؤمنین وہاں پہنچے ۔ ان کے قیام کے لئے شہر کے رومی گورنر نے ایک وسیع و عریض محل کی انتہائی دلکش طریقے سے آرائش کرائی تھی ۔ عمر ابن الخطاب ؓ نے اس قصر میں رہنے سے انکار کر دیا اور فرمایا’’ میری شان وشوکت اسی میں ہے کہ میں اپنے ہی فقیرانہ کیمپ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہائش اختیار کروں‘‘۔ آپ مسلمان فوج کیلئے قائم کی گئی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے اور وہاں 10 روز قیام کیا ۔ ایک بار خلیفہ المسلمین کیلئے بحرین سے کستوری کا تحفہ ارسال کیا گیا ۔ انہوں نے سوال کیا ، کیا کوئی ہے جو اس تحفے کو وزن کرنے کے بعد لوگوں میں برابر برابر تقسیم کرے ؟ ’’ آپکی اہلیہ بولیں میں یہ کام کرنے کو تیار ہوں آپؓ خاموش رہے ۔ چند لمحات کے بعد آپؓ نے دوبارہ اعلان کیا ’’ کیا کوئی اس کا وزن کرے گا تاکہ میں اسے تقسیم کر سکوں؟ آپؓ کی اہلیہ نے دوبارہ اپنی خدمات پیش کر دیں ۔
امیر المومنین بولے ’’ تم وزن کرتے وقت ضرور عطر کو ہاتھ لگائو گی اس کے بعد امکان ہے کہ تم ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرو گی اور اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہو گی ۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں دوسروں پر یہ برتری بھی ملے ۔ ایک دفعہ کسی جنگ سے بے شمار مالِ غنیمت مدینہ منورہ لایا گیا ۔ عمر ابن الخطاب ؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ نے آپؓ سے کہا ’’ میں آپ کی قریب ترین عزیزہ ہوں اس لئے اس مال میں سے میرا حصہ مجھے دے دیں ‘‘۔خلیفہ المسلمینؓ نے جواب دیا ’’ یہ سب بیت المال کی ملکیت ہے ۔ تمہارا حصہ میری املاک میں بنتا ہے ۔ بیت المال میں نہیں ۔ مالِ غنیمت میں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ مت کرو ۔ ام المؤ منین نے خاموشی اختیار کرلی ۔ ایک دن امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب کی طبیعت خراب ہو گئی ۔ کسی نے شہد استعمال کرنے کا مشورہ دیا ۔ گھر میں تو شہد نہیں تھی تاہم بیت المال میں اس کا وافر ذخیرہ تھا ۔
عمرؓ مسجد تشریف لے گئے جہاں نماز کیلئے ایک بڑا ہجوم جمع تھا۔ آپؓ نے اپنی ناسازی طبع کا ذکر کیا اور نمازیوں سے التجا کی کہ وہ انہیں بیت المال سے تھوڑا شہد لینے کی اجاز ت دیں ۔ ایک اور واقعے کا ذکر بھی بہت بر محل ہوگا ۔ ایک دن ایک گداگر نے آپؓ سے اپنی ناداری کا رونا رویا اور مدد کا طالب ہوا ۔ آپؓ نے دیکھا کہ اس کا تھیلا آٹے سے بھرا ہو ا تھا ۔ آپؓ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے کام میں مشغول رہے ۔ بھکاری نے دربارہ آپؓ سے اپنی عسرت کا قصہ کہا اور مدد کا طلبگار ہوا ۔ امیر المؤمنین ؓ کو غصہ آگیا ۔ آپؓ نے بھکاری سے اس کا تھیلا چھینا اور اس میں بھرا آٹا قریبی اونٹ کے سامنے لے جا کر الٹ دیا ۔ پھر آپؓ نے تھیلا بھکاری کو واپس کیا اور کہا اب تم صحیح معنوں میں ایک غریب آدمی ہو ، جائو اور بھیک مانگتے رہو ۔ عالم اسلام کے اس عظیم ترین فاتح کے بارے میں معروف مورخ ایڈورڈگبن اپنی شہرۂ آفاق تصنیف رومی سلطنت کا عروج و زوال میں لکھتا ہے ’’عمرؓکی خوراک جوکی روٹی اور کھجوروں پر مشتمل تھی ۔
ان کا مشروب پانی تھا ۔ نماز کی امامت کراتے وقت ان کے بدن پر ایسا جبہ ہوتا تھا جس میں ایک درجن کے قریب پیوند لگے ہوتے تھے ۔ فارس کے ایک صوبہ دارنے جو فاتحِ فارس کو خراج تحسین پیش کرنے آیا تھا ۔ عمر ابن الخطابؓ کو مسجد نبوی کی سیڑھیوں پر بھکاریوں کے درمیان سوتا پایا تھا ۔ روم اور فارس کی اپنے وقتوں کی عظیم ترین بادشاہتوں کے فاتح عمر ابن الخطاب ؓ نے جب داعی اجل کو لبیک کہا تو ترکے میں کھردرے کپڑے سے بنا ایک لباس اور 5دینار چھوڑے!! اللہ باقی!! قارئین کرام کو رمضان کریم !!