Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا آپ شاہ رخ خان کی فلم ’رئیس‘ کے اصلی رئیس کو جانتے ہیں؟

بالی وڈ کے کنگ خان کہلانے والے اداکار شاہ رخ خان کی فلم رئیس کا ایک ڈائیلاگ ہے، ’امی جان کہتی تھیں کوئی دھندا چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔‘
یہ ڈائیلاگ کہیں نہ کہیں انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے عبد اللطیف نامی شخص پر صادق آتا ہے جو بچپن سے اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے سمگلنگ کی دنیا کا ایک بڑا نام بن گئے۔ اتنا ہی نہیں شاہ رخ خان کی اس فلم کو ان کی کامیابی کی کہانی پر مبنی بتایا جاتا ہے۔
بے انتہا دولت کمانے کی طلب لوگوں کو جرم کے سمندر میں تیرنا تو سکھا دیتی ہے لیکن یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور انسان اس کنارے کی تلاش میں سمندر کی لہروں کے درمیان کہیں نہ کہیں پھنس کر رہ جاتا ہے۔
کہتے ہیں جرم کا دروازہ جب ایک بار کھلتا ہے تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور یہ بات گجرات کے معروف گینگسٹر عبد اللطیف پر بھی صادق آتی ہے۔
1980 کی دہائی میں گجرات پر پوری طرح سے عبد اللطیف کا قبضہ تھا۔ ان کی پرورش انتہائی غریب گھرانے میں ہوئی تھی اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی جرم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔
انڈیا کے ہندی نیوز چینل آج تک کے مطابق وہ جوئے کے اڈوں پر نوکری کرنے لگے اور وہاں ویٹری کرتے رہے۔
وہ جلد ہی بوٹلیگر (چوری سے شراب کی تجارت کرنے والے ) بن گئے اور بالآخر گجرات میں اس غیر قانونی کاروبار پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔
انڈین میڈیا کے مطابق گینگسٹر عبداللطیف قتل، کنٹریکٹ کلنگ، ہفتہ وصولی، فسادات، اغوا اور سمگلنگ کے 100 سے زائد مقدمات میں مطلوب تھے۔

عبداللطیف گجرات شہر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بہت مشہور تھے۔(فوٹو: بشکریہ انڈیا ٹوڈے)

اس کے ساتھ ہی 1993 کے ممبئی دھماکوں کے سلسلے میں بھی وہ پولیس کو مطلوب تھے کیونکہ وہ ممبئی کے داؤد گینگ سے وابستہ تھے اور انھیں احمدآباد میں ان کا آدمی سمجھا جاتا تھا۔
لطیف گینگ کے خلاف 243 مقدمات درج تھے جن میں 64 قتل اور 14 اغوا شامل تھے۔
ان کا گجرات میں اتنا اثر و رسوخ تھا کہ انھیں اس علاقے کا داؤد ابراہیم کہا جانے لگا تھا۔
عبد اللطیف 1951 میں گجرات کے دریا پور کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ عبدالطیف کے والد وہاب شیخ تمباکو وغیرہ بیچنے کا کام کرتے تھے  جس سے پورے خاندان کا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا تھا۔
آج تک‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق شروعات میں عبد اللطیف نے والد کے ساتھ ہی تجارت میں ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ان کے والد انھیں روز کے دو روپے دیا کرتے تھے لیکن جب بھی مزید پیسوں کی ضرورت ہوتی تو باپ پیسے دینے سے منع کردیتے اور گھر میں جھگڑے کا ماحول پیدا ہو جاتا۔
عبداللطیف سے یہ دیکھا نہ گیا، انھوں نے زندگی کا بڑا فیصلہ کیا اور 1980 کی دہائی میں احمدآباد میں کالوپور اوور برج کے پاس دیسی شراب بیچنے کا کام شروع کردیا۔
کچھ وقت تک اللہ رکھا نامی شخص کے ساتھ شراکت میں کام کیا لیکن پھر آزادانہ طور پر اپنا دھندا شروع کردیا۔

1995 میں گجرات پولیس نے عبدالطیف کو دہلی سے گرفتار کر لیا۔ (فوٹو: ہف پوسٹ)

وہ مزید پیسوں کی لالچ میں ہتھیاروں کی سمگلنگ بھی کرنے لگے اور ساتھ ساتھ  تاوان کے لیے اغوا اور ہفتہ وصولی جیسے جرائم میں بھی قدم رکھ دیا۔
عبداللطیف شہر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بہت مشہور تھے۔ انھیں غریبوں کا مسیحا سمجھا جانے لگا تھا۔
وہ اپنے گینگ میں بے روزگار لڑکوں کو شامل کرتے اور انھیں کام کے بدلے پیسے دیتے تھے۔ اپنی دریا دلی اور رفاہ عام کے کاموں کے لیے وہ عوام میں مقبول ہوتے گئے جس سے ان کے لیے سیاست کے دروازے بھی کھلنے لگے اور انھوں نے سنہ 1985 میں جیل سے الیکشن لڑا اور پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
گجرات کے جرنلسٹ پرشانت دیال نے ہندی نیوز پروگرام للن ٹاپ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’ایک طرف لطیف قوم کے لیڈر بنے ہوئے تھے اور اسی وقت انڈیا کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ترقی ملی تھی اور وہ بی جے پی میں وزیر کے طور پر شامل ہوئے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ 1986 میں احمد آباد میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ کانگریس اقتدار میں تھی اور بی جے پی اپوزیشن میں۔ انتخابات میں نالے کی صفائی، سڑک، پانی، بجلی جیسے مسائل اٹھائے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اور نریندر مودی نے انتخابی مہم میں لطیف کا نام استعمال کیا اور کہا ’لطیف کو مت بھولنا۔
اس زمانے میں لطیف سے متعلق خبریں بھی خوب شائع ہو رہی تھیں۔ لوگ لطیف کی دہشت کی کہانیوں سے واقف تھے۔ اسی دوران لطیف کو ایک بڑے جرم میں دہشت گردی کے قانون ٹاڈا کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا اور وہ سابرمتی جیل میں بند تھے۔ وہ وہاں سے نکلنے کے لیے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن کانگریس کے قریبی کہے جانے کے باوجود پارٹی نے انھیں ٹکٹ نہیں دیا۔
انھوں نے جیل میں رہتے ہوئے احمد آباد کی پانچ میونسپل سیٹوں پر الیکشن لڑا۔ ایک طرف بی جے پی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر لطیف کی کارروائیوں سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی تو دوسری طرف لطیف تھا جو ایک دن بھی انتخابی مہم پر نہیں گیا۔
جب الیکشن کے نتائج آ ئے تو دونوں جیت گئے۔ بی جے پی نے پہلی بار احمد آباد کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جبکہ لطیف نے جیل سے ہی پانچ وارڈوں سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

فلم رئیس کی ریلیز کے بعد عبد الطیف کے بیٹوں نے فلم کے تخلیق کاروں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ (فوٹو: بشکریہ ہف پوسٹ)

لطیف کی بدنامی اس وقت احمد آباد سے نکل کر پورے ملک میں پہنچ گئی جب 1993 کے ممبئی بم دھماکوں میں ان کے شامل ہونے کی بات سامنے آئی۔
پولیس کے مطابق انھوں نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے واقعے کو انجام دینے کے لیے بم بنانے میں استعمال ہونے والا طاقتور دھماکہ خیز مادہ آر ڈی ایکس فراہم کیا تھا۔
اس کے بعد 1995 میں گجرات پولیس نے عبدالطیف کو دہلی سے گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں انھیں سابرمتی جیل بھیج دیا گیا جہاں آج سے 26 سال قبل 29 نومبر 1997 میں وہ 46 سال کی عمر میں ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
اس طرح ایک ’نڈر‘ اور ’بے باک‘ زندگی کی کہانی کا اختتام ہوا جس نے افسوسناک طور پر اپنی صلاحیتوں کو ناقابل قبول راستے پر ڈال دیا تھا۔
2017 کی بالی وڈ فلم رئیس میں شاہ رخ خان نے اداکاری کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عبدالطیف کی زندگی پر مبنی ہے۔
اس کی ریلیز کے بعد، لطیف کے بیٹوں نے فلم کے تخلیق کاروں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے والد کی مسخ شدہ  تصویر کشی کا الزام لگایا تھا۔
بیٹوں نے دعویٰ کیا کہ لطیف ایک خدا ترس آدمی تھے۔ اپنی زندگی میں وہ خوف اور احترام دونوں کے حامل  تھے۔
کوئی یہ قیاس کر سکتا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات معاشرتی انحطاط کی گھٹن زدہ گرفت کا مظہر تھے، پھر بھی مجرم ہمیشہ اپنے راستے پر چلتے ہیں، اور لطیف نے اسی راستے کا انتخاب کیا تھا۔

شاہ رخ خان سے قبل بھی عبدالطیف کی زندگی پر فلم بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ (فوٹو: بشکریہ ہف پوسٹ)

انڈیا ٹوڈے میں شائع ایک رپورٹ میں ممتاز سکالر عابد شمسی کہتے ہیں کہ ’اگر غریب مسلمانوں کا ایک طبقہ لطیف سے اپنی شناخت کرتا تھا تو یہ صرف اس لیے تھا کہ انھوں نے ان کے لیے وہ کیا جو فرقہ وارانہ فسادات کے دوران حکومتی ادارے نہیں کر سکے۔‘
ڈی آئی جی (اے ٹی ایس) کلدیپ شرما نے عبدالطیف کی گرفتاری کے وقت کہا تھا کہ ’ان کی گرفتاری منظم جرائم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ یہ داؤد کے لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے کیونکہ لطیف سٹریٹجک طور پر ان کا کلیدی لیفٹیننٹ تھا۔‘
شاہ رخ خان سے قبل بھی ان کی زندگی پر فلم بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ’چاند بجھ گیا‘ کے ڈائریکٹر شارق منہاج نے ’انکاؤنٹر لطیف‘ نامی فلم بنانے کی کوشش کی جو شاید کسی وجہ سے ریلیز نہ ہو سکی۔

شیئر: