Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پڑھنے آئے ہیں، تنگ نہ کیا جائے‘، اسلام آباد میں پرائیویٹ ہاسٹلز کے خلاف کریک ڈاؤن

وہ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مقیم ہیں مگر ان دنوں ان کو پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ وہ جس ہاسٹل میں قیام پذیر ہیں اسے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کی جانب سے بند کیے جانے کا  نوٹس دیا چکا ہے۔
کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے انہیں کوئی متبادل رہائشی سہولت فراہم نہیں کی گئی جس کے باعث ان کی ذہنی اذیت میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا ہے اور وہ ان خدشات کا شکار ہیں کہ کہیں ان کا تعلیمی سفر متاثر نہ ہو۔ 
سی ڈی اے کی جانب سے اب تک تقریباً 70 پرائیویٹ ہاسٹلز کو بذریعہ نوٹس آگاہ کیا جا چکا ہے کہ وہ ہاسٹل بند کریں کیونکہ یہ ایک کاروباری سرگرمی ہے۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سٹوڈنٹ لیڈر دانیال عبداللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سی ڈی اے کی جانب سے یہ طلبہ کو پریشان کرنے کی ایسی پہلی کوشش نہیں ہے، ماضی میں بھی طلبہ نے ایسی صورتِ حال کا سامنا کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2019 میں بھی ہاسٹلز کو اسی طرح بند کیا گیا تھا اور ہم نے اس حوالے سے جب ضلعی انتظامیہ کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے ایک کمیٹی بنائی جس میں سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کے علاوہ قانون دان اور طلبہ کو بھی شامل کیا گیا،اور اس وقت تقریباً 25 ہاسٹلز کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وبا کے دنوں میں ایک بار پھر ایسا ہی کریک ڈاؤن کیا گیا اور اب سی ڈی اے دوبارہ پرائیویٹ ہاسٹلز میں مقیم طلبہ کو ہراساں کر رہی ہے۔‘
ان کے مطابق سی ڈے اے کی نئی پالیسی کے مطابق ’دوستوں، کلاس فیلوز یا یونیورسٹی فیلوز کے ایک ساتھ رہنے کو رہائش تصور نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف خونی رشتوں کے ایک ساتھ رہنے کو ہی رہائش تصور کیا جائے گا۔‘
’اسلام آباد میں تقریباً 35 سرکاری و نجی یونیورسٹیاں ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں مگر صرف پانچ یونیورسٹیوں کے پاس طلبہ کے لیے یونیورسٹی کے اندر ہاسٹلز موجود ہیں باقی تمام یونیورسٹیاں ہاسٹلز کی سہولت فراہم نہ کر کے سی ڈی اے قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘ 

پروگریسیو سٹوڈنٹس نے آٹھ نومبر کو احتجاج بھی کیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر پی آر ایس ایف)

پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن اسلام آباد راولپنڈی کی جنرل سیکریٹری فاطمہ شہزاد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سی ڈی اے نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں تقریباً 70 پرائیویٹ ہاسٹلز کو خالی کرنے کا نوٹس دیا ہے، جن میں سے تقریباً 25 ہاسٹلز خواتین کے ہیں۔ اِن میں 500 سے زیادہ طلبہ رہائش پذیر ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آٹھ نومبر کو ہم نے اس حوالے سے نیشنل پریس کلب کے باہر پر امن احتجاج بھی کیا تھا جہاں پولیس کی جانب سے ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔‘
 فاطمہ شہزاد کے مطابق سیاسی جماعتیں انتخابات کے وقت نوجوانوں کے لیے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہیں مگر اس معاملے پر سب خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں مقیم طلبہ کو پڑھنے کا حق حاصل ہے اور انہیں پڑھنے دیا جائے۔
ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ مہک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اسلام آباد پڑھنے آئے ہیں، مگر اب یہ ہاسٹلز کا مسئلہ شروع ہوگیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں یونیورسٹی ہمیں اندرونی ہاسٹل کی سہولت فراہم نہیں کر رہی جس کے باعث طالبعلموں کی بڑی تعداد نجی ہاسٹلز میں رہتی ہے جب کہ سی ڈی اے نے اب وہاں سے نکلنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کیا قصور کیا ہے کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے مقتدر حلقوں سے مطالبہ کیا کہ ’ہمیں پڑھنے دیا جائے اور یوں تنگ نہ کیا جائے۔‘
اس معاملے پر اسلام آباد کی ہاسٹلز ایسوسی ایشن کے اعلیٰ عہدیدار سرمد افتخار نے کہا کہ ’ملک بھر سے بچے یہاں پڑھنے کے لیے آتے ہیں جنہیں ہم سہولت فراہم کر رہے ہیں کیونکہ اسلام آباد کی 35 میں سے صرف پانچ جامعات کے پاس ہی ہاسٹلز کی سہولت موجود ہے مگر ان کے پاس بھی سارے بچوں کو رکھنے کی سہولت یا جگہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ہم نجی ہاسٹلز میں طالب علموں کو رہائش کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں مگر سی ڈی اے نے اب ان کی بندش کا نوٹس بھی دے دیا ہے جس کے خلاف بچوں کے ساتھ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔‘

سرمد افتخار کے مطابق اسلام آباد کی 35 میں سے صرف پانچ جامعات کے پاس ہی ہاسٹلز کی سہولت موجود ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں نجی ہاسٹلز کو خالی کرنے کے حوالے سے سی ڈی اے کے افسر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد میں جتنے بھی پرائیویٹ ہاسٹلز ہیں وہ سارے غیرقانونی ہیں اور تقریباً تمام ہاسٹلز کو نوٹس جاری کرکے آگاہ کر دیا گیا ہے جب کہ کچھ ہاسٹلز کو سیل بھی کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کے احکامات پر پر ہم انہیں حراساں نہیں کر رہے اور نہ ہی کوئی سخت قدم اٹھا رہے ہیں مگر اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں چھوٹے چھوٹے گھروں میں ہاسٹلز بنا کر سینکڑوں طلبہ کو ان میں رکھا گیا ہے۔ ہاسٹل مالکان کو ان بچوں کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سی ڈی اے نے تمام جامعات کو پہلے بھی خبردار کیا تھا اور اب ایک بار پھر سے خبردار کیا ہے کہ ہر یونیورسٹی اپنے طلبہ کے لیے ہاسٹلز کا بندوبست کرے جبکہ سی ڈی اے بچوں کو براہِ راست ایسی سہولیات دینے کی کوشش بھی کر رہی ہے اور یہ پالیسی بنائی گئی ہے کہ ’زون 2، 4 اور 5 میں اگر کوئی بلڈنگ کو ہاسٹل کے لیے استعمال کرے گا تو سی ڈی اے ان سے کوئی فیس نہیں لے گی بلکہ باقاعدہ ہاسٹلز کے لیے پلاٹ بھی نیلامی کے لیے مختص کیے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ بھی بات چل رہی ہے کہ جامعات کو بچوں کی رہائش کے لیے ہاسٹلز بنانے کا پابند کیا جائے۔‘
ہاسٹل کا معاملہ حل کرنے کے لیے اب مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

شیئر: