Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پارٹی شہباز شریف گروپ کو نظرانداز کر رہی ہے؟

’ٹکٹوں کی تقسیم میں ایسے فیصلہ سازوں کا زیادہ عمل دخل ہو گا جو نواز شریف کے قریب ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انتخابات کی چہل پہل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت سر جوڑے موزوں امیدواروں کا تعین کر رہی ہے تاکہ جیت صرف انہی کی ہو۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کے رفقا بھی گذشتہ کئی روز سے ان امیدواروں کی تلاش میں ہیں جن کی پارٹی کے ساتھ وفاداری پر کوئی شک نہ کیا جا سکتا ہو اور وہ بالخصوص پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ان تمام پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف گذشتہ ایک ماہ سے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع پارٹی کے مرکزی دفتر میں تقریباً روزانہ ان متوقع امیدواروں کے انٹرویوز کر رہے ہیں جو اگلے انتخابات میں پارٹی کا چہرہ ہوں گے۔
اس حوالے سے اجلاس سابق وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ہو رہے ہیں جن میں تقریباً ساری لیگی قیادت شریک ہو رہی ہے۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف صوبوں اور ڈویژنز کی سطح کے امیدواروں کو بُلا کر ان سے طویل انٹرویوز کیے گئے ہیں، تاہم ابھی تک پارٹی کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کا حتمی اعلان نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ مخصوص اور اقلیتی نشستوں کے لیے امیدواروں کی ترجیحی فہرست سے کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات کا تعین کرنے میں آسانی رہتی ہے اور یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں رہتا کہ پارٹی یہ نشستیں میرٹ یا جماعت سے وفاداری کی بنیاد پر دے رہی ہے۔
الیکشن قوانین کے مطابق مخصوص امیدواروں کی ترجیحی فہرستیں الیکشن کمیشن میں پہلے جمع کروانا پڑتی ہیں جس کی بنیاد پر سیاسی مبصرین یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اس بار ٹکٹوں کی تقسیم میں ایسے فیصلہ سازوں کا زیادہ عمل دخل ہو گا جو نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے اندر ہمیشہ سے ہی دو مختلف بیانیوں کی بات کی جاتی ہے۔ ایک بیانیہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا ہے اور دوسرا شہباز شریف کا بیانیہ ہے جو مصالحت پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں کئی پارٹی رہنما نواز شریف اور کچھ شہباز شریف کے قریب خیال کیے جا رہے ہیں۔

 پارلیمانی بورڈ نے شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والے ٹکٹ کے کئی امیدوار نظرانداز کردیے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)

مخصوص نشستوں کی ترجیحی فہرستوں کی بات کی جائے تو اس میں مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگ زیب کا نام پہلے نمبر پر ہے۔
دوسری طرف پنجاب کی سابق وزیر خزانہ اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر مملکت کے طور پر خدمات انجام دینے والی عائشہ غوث پاشا کا نام ترجیحی فہرست میں شامل نہیں جو شہباز شریف گروپ کی بہت اہم رُکن ہیں۔
خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی فہرست میں عائشہ رجب بلوچ، ثمینہ مطلوب اور مائزہ حمید گجر کے نام بھی شامل نہیں ہیں جب کہ حنا پرویز بٹ اس فہرست میں شامل ہونے میں کامیاب رہی ہیں۔
انتخابی حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ اس بار ن لیگ کے بند اجلاسوں میں شہباز شریف اور بالخصوص حمزہ شہباز شریف کا ٹکٹوں کے معاملے پر اثرورسوخ نظر نہیں آیا۔ ان کا اثرورسوخ اب وہ نہیں رہا جو کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس سے پہلے گذشتہ تین انتخابات میں پنجاب یا خاص طور پر لاہور سے ٹکٹوں کے معاملات میں حمزہ شہباز کا اہم کردار رہا ہے۔‘
’ان کی طرف سے دیے گئے ناموں کی قبولیت کا گراف زیادہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم اس بار حمزہ شہباز کے قریبی دوست احمد بٹ کے خاندان سے رابعہ بٹ بھی اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ وہ اس سے قبل صوبائی اسمبلی کی رُکن بھی رہ چکی ہیں۔‘

عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ ’پارٹی میں دھڑے بندی کا تاثر دُرست نہیں کیونکہ پارٹی ٹکٹ فی الحال جاری نہیں کیے گئے‘ (فائل فوٹو: عطا تارڑ ایکس اکاؤنٹ)

یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حمزہ شہباز نے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر نواز شریف سے شکوہ کیا ہے، تاہم مسلم لیگ ن نے ایسی تمام خبروں کی تردید کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف خود ٹکٹوں کا فیصلہ کر رہے ہیں اس لیے جن کی رسائی اُن تک زیادہ ہے اُن کے ٹکٹ حاصل کرنے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔‘
’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مریم نواز شریف الیکشن میں اُتر رہی ہیں۔ پارٹی کے اندر بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ پارٹی میں ذمہ داریاں تبدیل ہو رہی ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ البتہ ایسے کسی بھی تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہماری پارٹی اوپن فورم میں ٹکٹوں کی تقسیم کا کام کر رہی ہے جو کسی دوسری پارٹی نے نہیں کیا۔‘
ان کے مطابق ’ہماری پارلیمانی کمیٹی جس کے 35 اراکین ہیں، نے ایک ایک امیدوار کا انٹرویو کیا ہے اور پھر اپنی رائے دی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پارٹی میں دھڑے بندی کا تاثر دُرست نہیں کیوں کہ پارٹی ٹکٹ فی الحال جاری نہیں کیے گئے۔ پارٹی ٹکٹ جب جاری کیے جائیں گے تو تنقید کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔‘
’ٹکٹوں کی تقسیم میں ایسے لوگوں کو بھی ملحوظ رکھا جا رہا ہے جنہوں نے مشکل حالات میں پارٹی کا غیر معمولی طریقے سے ساتھ دیا۔‘

شیئر: