Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ کا 12 واں ہفتہ، اسرائیلی ٹینکوں کی غزہ کے علاقے میں پیش قدمی

اسرائیلی فضائیہ نے نصیرات اور بوریج کے شہری پناہ گزین کیمپوں پر جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات حملے کیے (فائل فوٹو: روئٹرز)
اسرائیلی جنگی طیاروں نے سنیچر کو وسطی غزہ میں دو شہری پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کی۔
اُدھر امریکی حکومت نے فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں، بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیل کو ہنگامی طور پر ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی حکومت نے رواں ماہ میں دوسری مرتبہ کانگریس کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔
سیکریٹری خارجہ اینٹونی بلنکن نے کانگریس کو بتایا کہ ’انہوں نے دوسری مرتبہ 14 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کے فوجی سامان کی فروخت کی منظوری دی ہے۔‘
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ’وہ حماس کو ختم کرنے تک اپنی بھرپور فضائی اور زمینی کارروائی جاری رکھے گا۔‘
تاہم ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ فلسطینی معاشرے میں عسکریت پسند گروپ کی جڑیں بہت مضبوط ہیں لہٰذا یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔
اس وقت امریکہ اسرائیل کو نہ صرف سفارتی طور پر ’تحفظ‘ فراہم کر رہا ہے بلکہ اسے ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل یہ دلیل دیتا ہے کہ اس وقت جنگ ختم کرنے کا مطلب حماس کی جیت ہو گی، اس کے ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ نے اسی وقت اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جانی نقصان سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
اسرائیلی فضائیہ نے نصیرات اور بوریج کے شہری پناہ گزین کیمپوں پر جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات حملے کیے۔
نصیرات کے رہائشی مصطفیٰ ابو واوی نے بتایا کہ اس کے ایک رشتہ دار کے گھر پر حملہ کیا گیا جس میں دو افراد مارے گئے۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے ’اسرائیل ہمیں کیمپوں سے نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے لیکن وہ ناکام ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل پناہ گزینوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ وہ ہمارے جذبے اور ارادے کو توڑنا چاہتا ہیں لیکن وہ ناکام ہوگا۔‘
جمعے کو رات گئے ایک دوسرے حملے میں القدس ٹی وی کے ایک صحافی کے گھر کو نشانہ بنایا گیا، یہ صحافی اسلامی جہاد گروپ سے منسلک تھا جس کے عسکریت پسندوں نے بھی 7 اکتوبر کے حملے میں حصہ لیا تھا۔ 
القدس ٹی وی کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’اسرائیلی حملے میں صحافی جابر اور ان کے خاندان کے 6 افراد ہلاک ہو گئے۔‘
واضح رہے کہ 7 اکتوبر کی صبح فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل پر اچانک ایک بڑا حملہ کیا جس میں غزہ کی پٹی سے راکٹ برسانے کے علاوہ مسلح افراد اسرائیل کے اندر بھی داخل بھی ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور فلسطین تنازعے کے 75 برسوں کے دوران حماس کی جانب سے کیے گئے ان حملوں کو بدترین قرار دیا جا رہا ہے۔
حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ کی پٹی میں متعدد رہائشی علاقوں اور بلند عمارتوں پر جوابی فضائی حملے کیے اور فریقین میں ایک طویل لڑائی کا سلسلہ شروع ہوگیا جو تاحال جاری ہے۔

شیئر: