Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا میں لاپتہ افراد کے سب سے زیادہ کیسز، کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف

لاپتہ افراد کمیشن نے عدالتی حکم پر تفصیلات اٹارنی جنرل کو جمع کرا دی ہیں جن کے مطابق لاپتہ افراد کے سب سے زیادہ تین ہزار 485 کیسز خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئے۔
سپریم کورٹ نے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں لاپتہ افراد کمیشن کو 10 روز میں تفصیلات اٹارنی جنرل کو جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
منگل کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان سے 2752 شہریوں کی جبری گمشدگی کے کیسز موصول ہوئے۔ خیبر پختونخوا سے شہریوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ شرپسندی، حالت جنگ اور ڈرون حملوں میں ہلاکتیں بتائی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنگی صورتحال کے باعث اہلخانہ کو بتائے بغیر دیگر ممالک منتقل ہونا بھی جبری گمشدگی کیسز کی وجہ ہے۔  لاپتہ افراد کو پیش کرنے کے لیے 744 پروڈکشن آرڈر جاری کیے، صرف 52 پر عمل ہوا۔
کمیشن کے جاری کردہ 692 پروڈکشن آرڈرز پر متعلقہ حکام نے عمل نہیں کیا۔ پروڈکشن آرڈرز پر نظرثانی کے لیے  پولیس اور حساس اداروں نے 182 درخواستیں دیں۔
رپورٹ کے مطابق عمل درآمد نہ ہونے والے پروڈکشن آرڈرز میں سے 503 خیبرپختونخوا کے ہیں۔ مارچ 2011 سے دسمبر 2023 تک 4413 لاپتہ افراد گھروں کو واپس پہنچے۔ لاپتہ ہونے والے 994 افراد مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاپتہ 644 افراد ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ مارچ 2011 سے دسمبر 2023 تک 261 لاپتہ افراد کی لاشیں ملیں۔
کمیشن نے 1477 کیسز کو جبری گمشدگی قرار نہ دیتے ہوئے خارج کر دیا، ان کیسز میں اغواء برائے تاوان، ذاتی عناد یا ازخود روپوش ہونے کے واقعات شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق کمیشن میں پنجاب کے 260، سندھ کے 163،کے پی کے 1336کیسز زیرالتواء ہیں۔ بلوچستان کے 468، اسلام آباد کے 55، آزاد کشمیر کے 15 کیسز زیر التوا ہیں۔
کمیشن نے رپورٹ میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن میں مجموعی طور پر 35 افسران و ملازمین تعینات ہیں جن کی ماہانہ تنخواہیں 15 لاکھ سے زائد ہیں۔ 
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے تفصیلات موصول ہونے کے20 دن میں جواب طلب کر رکھا ہے۔

شیئر: