Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں بے گناہ ہوں‘، سابق صدر ٹرمپ کی عدالت میں تقریر، جج پر الزامات

ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار ہیں (فوٹو: روئٹرز)
امریکہ کے سابق صدر اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے خلاف دھوکہ دہی کے مقدمے کے اختتام پر بولنے کا موقع نہ دیے جانے پر سیخ پا ہوتے ہوئے جج کو مخاطب کر کے چھ منٹ کی تقریر کر ڈالی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت بولنا شروع کر دیا جب جج نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وہ ان نکات پر باتیں گے جو مقدمے سے متعلق ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاجی لہجے میں کہا کہ ’میں ایک بے گناہ شخص ہوں، مجھے اس شخص کی جانب سے تنگ کیا جا رہا ہے جو عہدے کی دوڑ میں شامل ہے، میرے خیال میں آپ کو تعلقات سے نکلنا پڑے گا۔‘
اس موقع پر جج آرتھر اینگورون جنہوں نے قبل ازیں ڈونلڈ کو اختتامی بیان دینے سے روک دیا تھا، نے بغیر کسی مداخلت کے انہیں بات جاری رکھنے دی اور پھر لنچ بریک کے لیے سماعت عارضی طور پر روک دی۔
ٹی وی پر نشر نہ ہونے والی گفتگو میں ٹرمپ نے جج پر جانبداری کے الزامات بھی لگائے۔
اس مقدمے میں سابق صدر کے خلاف ان الزامات پر سماعت ہو رہی تھی کہ انہوں نے اپنی سٹیٹ منٹس میں دولت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جو بینکوں، انشورنس کمپنیز اور دیگر اداروں کو دی گئیں۔
نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹٹیا جیمز جو ایک ڈیموکریٹ ہیں، نے ٹرمپ نے خلاف 2022 میں مقدمہ ریاست کے ان قوانین کے تحت دائر کیا تھا جو الزامات اور کاروباری معاہدوں کے حوالے سے وسیع پیمانے پر تحقیقات کی اجازت دیتے ہیں۔

جج آرتھر اینگورون کا کہنا ہے کہ امید ہے 31 جنوری تک مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا (فوٹو: اے پی)

نمایاں ری پبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ پورے مقدمے کے دوران اینگورون کو تذلیل کا نشانہ بناتے رہے اور بدھ کی رات سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں ان پر جیمز کے ساتھ مل کر کام کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
بدھ کو اینگورون نے ٹرمپ کے وکیلوں کی جانب سے دی گئی اس غیرمعمولی درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ مقدمے کے اختتامی کلمات ادا کریں گے۔
اہم نکتہ یہ تھا کہ ٹرمپ کے وکیل جج کے اس نکتے سے اتفاق نہیں کریں گے کہ وہ متعلقہ معاملات پر بات کریں اور تقریر کرنے سے گریز کریں۔
جمعرات کو ٹرمپ کے دو وکیلوں کی جانب سے اختتامی دلائل دینے کے بعد ان میں سے ایک کرسٹوفر کائز نے جج سے ایک بار پھر پوچھا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ بات کر سکتے ہیں؟ جس پر انہوں نے ٹرمپ کی دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ رولز کی پابندی کریں گے، اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے بولنا شروع کر دیا۔

جج اینگورون نے ٹرمپ کی اختتامی کلمات ادا کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی (فوٹو: اے پی)

 
ان کے مطابق ’مجھ پر دھوکہ دہی کا الزام بدنیتی پر مبنی ہے۔‘ انہوں نے جج پر ان کی بات نہ سننے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پتہ ہے کہ یہ آپ کے لیے بورنگ بات ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی جج نے وکیل کو انتباہ کرتے ہوئے کہ اپنے موکل کو کنٹرول میں رکھیں۔
جج اینگورون نے ٹرمپ سے کہا کہ ان کے پاس صرف ایک منٹ رہ گیا اور تھوڑی بات کریں اور اس کے بعد سماعت ملتوی کری دی۔

شیئر: