’کہنے کو مزید کچھ نہیں،‘ ٹرمپ نے فراڈ کے مقدمے میں گواہی دینے کا ارادہ بدل لیا
’کہنے کو مزید کچھ نہیں،‘ ٹرمپ نے فراڈ کے مقدمے میں گواہی دینے کا ارادہ بدل لیا
پیر 11 دسمبر 2023 6:32
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف مقدمے کو ’وِچ ہنٹ‘ قرار دیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک فراڈ کیس میں اپنے دفاع میں گواہی دینے کے حوالے سے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ کوئی موقف نہیں دیں گے کیونکہ اُن کے پاس ’کہنے کو مزید کچھ نہیں ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 77 سالہ سابق امریکی صدر نے اتوار کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ وہ اپنے، اور اپنے بیٹوں ڈان جونیئر اور ایرک، ٹرمپ آرگنائزیشن کے دیگر عہدیداروں کے خلاف جاری مقدمے میں پہلے ہی ہر چیز کی گواہی دے چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے گذشتہ مہینے استغاثہ کی جانب سے پوچھ گچھ کی گئی تھی، جنہوں نے اُن پر اور دیگر مدعا علیہان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے رئیل سٹیٹ کے اثاثوں کی مالیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ بینک قرضوں اور انشورنس کے لیے شرائط پر پورا اُترا جا سکے۔
چھ نومبر کو چار گھنٹے تک سابق صدر استغاثہ کے ساتھ تکرار میں اُلجھے رہے، اُن کے سخت جوابات پر جج آرتھر اینگورون کی جانب سے سرزنش بھی کی گئی جنہوں نے انہیں خبردار کیا کہ ’یہ کوئی سیاسی ریلی نہیں ہے۔‘
اتوار کو ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ وہ پہلے ہی اس معاملے میں بہت کامیابی سے اور حتمی طور پر گواہی دے چکے ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سول فراڈ کے مقدمے میں دھوکہ دہی کے ذریعے دس کروڑ ڈالر سے زیادہ کمانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمس نے ستمبر 2022 میں ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بینک اور بیمہ کنندگان کو پیش کردہ اپنے سالانہ مالیاتی گوشواروں میں اپنے اثاثوں کو دو اعشاریہ دو ارب ڈالر بڑھا کر پیش کیا تھا۔
اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمز نے کم از کم 25 کروڑ ڈالر جرمانہ، ڈونلڈ ٹرمپ اوران کے بیٹوں ڈونلڈ جونیئر اور ایرک کے خلاف نیویارک میں کاروبار چلانے پر مستقل پابندی کے ساتھ ساتھ ٹرمپ اور ٹرمپ آرگنائزیشن کے خلاف پانچ سال کی کمرشل رئیل اسٹیٹ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دلائل شروع کرنے سے پہلے جج آرتھر اینگورون نے ریمارکس میں کہا تھا کہ لیٹیٹیا جیمز کے دفتر نے پہلے ہی حتمی ثبوت دکھائے ہیں کہ ٹرمپ نے 2014 اور 2021 کے درمیان مالی دستاویزات پر اپنی مجموعی مالیت کو 812 ملین ڈالر اور 2.2 ارب ڈالر تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
دو اکتوبر کو اس مقدمے کے آغاز کے بعد سے ارب پتی ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کارروائی کو اپنے خلاف ’وِچ ہنٹ‘ یعنی سیاسی انتقام قرار دیا۔
گذشتہ گواہی کے دوران ایک موقع پر جج آرتھر اینگورون نے بظاہر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کے وکیل کرسٹوفر کِس سے کہا تھا کہ ’اپنے مؤکل کو کنٹرول کریں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ جن بینکوں کو ٹرمپ آرگنائزیشن نے بینک سٹیٹمنٹس بھیجی تھیں، انہوں نے اس حوالے سے مناسب کام کیا ہے اور ٹرمپ ٹیم کے مطابق سے انہیں مالی نقصان نہیں پہنچا۔
یہاں تک کہ وکلا کی جانب سے گواہی دینے کے لیے ڈوئچے بینک کے موجودہ اور سابق ملازمین کو بھی سامنے لایا گیا۔
یہ ٹرائل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گواہی کے بغیر جاری رہے گا، جس کا فیصلہ جنوری کے آخر تک متوقع ہے۔