انڈونیشیا عالمی عدالت میں اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں دکھائے گا
اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں 24 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور تقریباً 19 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈونیشیا کی وزیر خارجہ ریتنو مارسودی نے کہا ہے کہ ان کا ملک فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو چیلنج کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں سماعت کے لیے قانونی دلائل تیار کر رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق عالمی عدالت انصاف 19 فروری کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں عوامی سماعت کرے گی، جہاں فریقین فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے قانونی نتائج پر اپنے دلائل پیش کریں گے۔
آئی سی جے بالآخر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے ایک ’نان بائنڈنگ‘ ایڈوائزری جاری کرے گا۔ جنرل اسمبلی نے دسمبر 2022 میں اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کی تھی۔
اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں 24 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور تقریباً 19 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔
وزیر خارجہ نے جکارتہ میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے ساتھ بات چیت سے قبل کہا کہ ’انڈونیشیا آئی سی جے سے ایڈوائزری کی درخواست کرنے میں جنرل اسمبلی کی کوشش کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کی فلسطین کے خلاف بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو دنیا کو دکھانے کے لیے ایک جامع قانونی رائے قائم کرنا ضروری ہے۔‘
انہوں نے تل ابیب کی طرف سے فلسطینی علاقوں کے الحاق، مغربی کنارے میں اس کی بستیوں اور یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا۔
’ہماری آج کی بات چیت نہ صرف انڈونیشیا کی سفارت کاری کی حمایت کرے گی بلکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق عالمی نظام کے نفاذ کی حمایت کرے گی اور اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کے حصول میں مدد کرے گی۔‘
آئی سی جے میں فروری کی سماعت جنوبی افریقہ کے پچھلے سال کے آخر میں شروع کیے گئے مقدمے سے الگ ہے، جس میں اسرائیل پر غزہ میں ’نسل کشی کی کارروائیوں‘ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
جکارتہ نے دی ہیگ میں جنوبی افریقہ کے کیس میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے کیونکہ انڈونیشیا نسل کشی کنونشن کا فریق نہیں ہے۔
وزیر خارجہ ریتنو مارسودی نے کہا کہ ’اگرچہ ہم نسل کشی کنونشن کے فریق نہیں ہیں، لیکن انڈونیشیا نے جنوبی افریقہ کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔‘
’انڈونیشیا کی تمام کوششوں کا بنیادی نکتہ فلسطینی جدوجہد کی حمایت جاری رکھنے کے لیے تمام ممکنہ طریقے تلاش کرنا ہے۔‘