سنہ 1984 کا دور تھا اور ملک پر جنرل ضیا الحق کی آمریت کا راج تھا۔ جس وزیراعظم نے ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا تھا اسے ہی تختہ دار تک پہنچا کر اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کے باوجود انہیں چین میسر نہ تھا۔
اس کی وجہ اپوزیشن جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی سمیت دوسری پارٹیاں شامل تھیں، نے فوجی حکومت کے خلاف موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) کے نام سے تحریک شروع کر رکھی تھی۔
مزید پڑھیں
-
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ یا ’مقدمے کا قتل‘Node ID: 554291
اس تحریک کا زور صرف بڑے شہروں تک تھا، 1983 میں غلام مصطفیٰ جتوئی نے ایم آر ڈی کے تحت عوامی تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن اس کا زور صرف سندھ کے دیہات و قصبات تک ہی محدود تھا۔ سینکڑوں لوگ تاریک راہوں میں مارے گئے، ہزاروں گرفتار ہوئے اور کئی ایک جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اس کشیدہ ماحول میں جنرل ضیا الحق نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہوا تھا اور وہ اس حوالے سے پریشان تھے، لیکن تب انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پاکستان کی انتخابی اور آئینی سیاست کی حرکیات ہی بدل ڈالیں اور جس کا خمیازہ آج بھی یہ ملک بھگت رہا ہے۔
اس فیصلے کے ایک کردار سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے اس حوالے سے مظفر محمد علی کی کتاب ’پاکستان کے رازداں صحافی، صفدر میر سے حامد میر تک‘ میں اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ’جب 1979 کے الیکشن ملتوی ہوئے تو میرا جنرل ضیا سے جھگڑا ہو گیا تھا۔
’اس کے بعد میں ان سے اس وقت تک نہیں ملا جب تک انتخابات کا اعلان نہیں ہوا۔ چار پانچ سال تک میری ان سے ملاقات نہیں رہی، پھر جب ہماری ملاقات شروع ہوئی تو اس وقت ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور وہ الیکشن شیڈول کا اعلان کر چکے تھے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’وہ (جنرل ضیا الحق) اس وقت بڑے پریشان تھے اور میں نے کبھی انہیں اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ انہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ امریکہ ان کے خلاف ہو گیا ہے۔ وہ اس وقت خاصے مضطرب تھے۔‘
’انہوں نے بتایا کہ امریکہ اور غیرملکی طاقتوں نے میرے خلاف فیصلہ کر لیا ہے، پھر وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ کا خیال ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک کا کیا نتیجہ نکلے گا، میں نے کہا کہ فیل ہو جائے گی وہ بڑے حیران ہوئے کہ کیسے؟‘

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا کہ میرے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ ایم آر ڈی گرفتاریوں کا اعلان کر رہی ہے گرفتاریاں لاہور میں ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ ملک کے باقی حصوں میں کیا ہو رہا ہے۔‘
’میں تو پنجاب کی بات کر رہا ہوں یہ گرفتاریاں لکشمی چوک، بھاٹی چوک میں ہوتی ہیں جب شو ٹُوٹنے کا وقت ہوتا ہے سنیما چھٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت گرفتاری پیش کی جاتی ہے۔‘
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’ایسا مقام چُننے والوں کا خیال ہے کہ وہاں پر ہجوم ہو گا اس طرح یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا تو وہاں پر شو چُھوٹ رہے ہوتے ہیں، ہزاروں لوگ ہوتے ہیں لیکن لاتعلق گزر جاتے ہیں۔ پولیس آتی ہے اور پھر جیسے بکروں کو قصائی پکڑتے ہیں پولیس ان کو وین میں ڈال کر چُپ کر کے چلی جاتی ہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’چنانچہ میں نے کہا کہ پنجاب میں کوئی تحریک کی طرف متوجہ نہیں ہے یہ ختم ہو جائے گی۔ میں نے اپنا پورا تجزیہ تفصیل سے بیان کیا تو ان کے چہرے پر رونق آگئی، خیر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ الیکشن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘
’میں نے کہا کہ الیکشن تو آپ ایک ہی طرح کا کرا سکتے ہیں، کہنے لگے کہ کون سا؟ میں نے کہا کہ غیر جماعتی۔ آپ جماعتی الیکشن تو کرا ہی نہیں سکتے آپ تو غیر جماعتی کرا سکتے ہیں اس لیے غیر جماعتی کی بات ہونی چاہیے۔‘

مجیب الرحمان شامی نے بتایا کہ ’ضیا الحق کہنے لگے کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ جس دن آپ نے جماعتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو گیند جماعتوں کی کورٹ میں چلی جائے گی وہ اپنی شرائط لگائیں گی اور جب آپ اُن کی شرائط پوری نہیں کر سکیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، جب وہ یہ کہیں گے تو آپ خالی ہاتھ ہو جائیں گے کیونکہ آپ کے انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔‘
مجیب الرحمان شامی نے انٹرویو میں مزید بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے صحافی صلاح الدین کو بھی اپنی تجویز پر راضی کیا۔ اس کے بعد ضیا الحق نے انہیں مشورے کے لیے بلایا جہاں زیڈ اے سلہری، محمد صلاح الدین، ضیا الاسلام انصاری اور ابن حسن موجود تھے۔‘
’اب میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فیصلہ میں نے کرایا لیکن تب ابھی تک وہ گومگو کی کیفیت میں تھے، ان کی خواہش تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور کوشش تھی کہ انہیں اس کی سپورٹ مل جائے۔ میرے ساتھ ان کی گفتگو نے انہیں ایک کلیریٹی دی اور وہ اس راستے پر چل پڑے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے اس مشورے اور اس کے قومی سیاست پر اثرات کے حوالے سے جب اردو نیوز نے ان سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’1977 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے جس کے بعد مارشل لا آگیا۔ جنرل ضیا الحق انتخابات کرانے کو تیار نہیں تھے، انہیں سیاسی جماعتوں کا خوف محسوس ہو رہا تھا تو ایسے میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوتے تو محاذ آرائی شروع ہو جاتی۔‘

’یہ بات جب زیرِبحث آئی تو میری رائے یہ تھی کہ انتخابات نہ کرانے سے بہتر ہے کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہی ہو جائیں۔ اعلان کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان اس میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔‘
سینیئر صحافی نے کہا کہ ’اس کے نتیجے میں اسمبلی میں وہ لوگ پہنچے جو پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے تھے یا آزاد تھے۔ پھر انہی آزاد ارکان کی مدد سے جماعت بنی اور محمد خان جونیجو کا بطور وزیراعظم انتخاب ہوا۔‘
اس سوال پر کہ کیا آج انہیں لگتا ہے کہ ان کے مشورے سے ملکی سیاست کو نقصان ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’ضیا الحق نے یہ سب صرف میرے مشورے پر تو نہیں کیا تھا جبکہ میں چاہتا تھا کہ ملک میں انتخابات ہو جائیں اور ایک سیاسی عمل کا آغاز ہو۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت جو سیاسی عمل شروع ہوا وہ 1999 تک جاری رہا اور پھر پرویز مشرف آگئے، لیکن یہ بات بھی ہے کہ اس سے نقصانات بھی ہوئے اور غیر سیاسی عناصر پارلیمنٹ میں آگئے۔‘
غیر جماعتی انتخابات کا نقصان
ان غیر جماعتی انتخابات نے پاکستانی سیاست پر کیسے اثرات مرتب کیے اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ ’1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام ہے اور آئین کے مطابق سیاسی جماعت بنانا اور اس میں شمولیت اختیار کرنا ہر شہری کا حق ہے۔‘
