Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ غیر جماعتی انتخابات جنہوں نے ملکی سیاست کو بدل ڈالا  

ضیا الحق نے 29 مئی 1988 کو اسمبلیاں توڑ دیں اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی) 
سنہ 1984 کا دور تھا اور ملک پر جنرل ضیا الحق کی آمریت کا راج تھا۔ جس وزیراعظم نے ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا تھا اسے ہی تختہ دار تک پہنچا کر اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کے باوجود انہیں چین میسر نہ تھا۔
اس کی وجہ اپوزیشن جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی سمیت دوسری پارٹیاں شامل تھیں، نے فوجی حکومت کے خلاف موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) کے نام سے تحریک شروع کر رکھی تھی۔  
اس تحریک کا زور صرف بڑے شہروں تک تھا، 1983 میں غلام مصطفیٰ جتوئی نے ایم آر ڈی کے تحت عوامی تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن اس کا زور صرف سندھ کے دیہات و قصبات تک ہی محدود تھا۔ سینکڑوں لوگ تاریک راہوں میں مارے گئے، ہزاروں گرفتار ہوئے اور کئی ایک جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔  
اس کشیدہ ماحول میں جنرل ضیا الحق نے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہوا تھا اور وہ اس حوالے سے پریشان تھے، لیکن تب انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پاکستان کی انتخابی اور آئینی سیاست کی حرکیات ہی بدل ڈالیں اور جس کا خمیازہ آج بھی یہ ملک بھگت رہا ہے۔  
اس فیصلے کے ایک کردار سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے اس حوالے سے مظفر محمد علی کی کتاب ’پاکستان کے رازداں صحافی، صفدر میر سے حامد میر تک‘ میں اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ’جب 1979 کے الیکشن ملتوی ہوئے تو میرا جنرل ضیا سے جھگڑا ہو گیا تھا۔
’اس کے بعد میں ان سے اس وقت تک نہیں ملا جب تک انتخابات کا اعلان نہیں ہوا۔ چار پانچ سال تک میری ان سے ملاقات نہیں رہی، پھر جب ہماری ملاقات شروع ہوئی تو اس وقت ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور وہ الیکشن شیڈول کا اعلان کر چکے تھے۔‘
 مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’وہ (جنرل ضیا الحق) اس وقت بڑے پریشان تھے اور میں نے کبھی انہیں اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ انہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ امریکہ ان کے خلاف ہو گیا ہے۔ وہ اس وقت خاصے مضطرب تھے۔‘
’انہوں نے بتایا کہ امریکہ اور غیرملکی طاقتوں نے میرے خلاف فیصلہ کر لیا ہے، پھر وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ کا خیال ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک کا کیا نتیجہ نکلے گا، میں نے کہا کہ فیل ہو جائے گی وہ بڑے حیران ہوئے کہ کیسے؟‘  

ضیا الحق نے غیرجماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے ان کا بائیکاٹ کردیا (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’میں نے کہا کہ میرے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ ایم آر ڈی گرفتاریوں کا اعلان کر رہی ہے گرفتاریاں لاہور میں ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ ملک کے باقی حصوں میں کیا ہو رہا ہے۔‘
’میں تو پنجاب کی بات کر رہا ہوں یہ گرفتاریاں لکشمی چوک، بھاٹی چوک میں ہوتی ہیں جب شو ٹُوٹنے کا وقت ہوتا ہے سنیما چھٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت گرفتاری پیش کی جاتی ہے۔‘
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’ایسا مقام چُننے والوں کا خیال ہے کہ وہاں پر ہجوم ہو گا اس طرح یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا تو وہاں پر شو چُھوٹ رہے ہوتے ہیں، ہزاروں لوگ ہوتے ہیں لیکن لاتعلق گزر جاتے ہیں۔ پولیس آتی ہے اور پھر جیسے بکروں کو قصائی پکڑتے ہیں پولیس ان کو وین میں ڈال کر چُپ کر کے چلی جاتی ہے۔‘  
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’چنانچہ میں نے کہا کہ پنجاب میں کوئی تحریک کی طرف متوجہ نہیں ہے یہ ختم ہو جائے گی۔ میں نے اپنا پورا تجزیہ تفصیل سے بیان کیا تو ان کے چہرے پر رونق آگئی، خیر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ الیکشن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘
’میں نے کہا کہ الیکشن تو آپ ایک ہی طرح کا کرا سکتے ہیں، کہنے لگے کہ کون سا؟ میں نے کہا کہ غیر جماعتی۔ آپ جماعتی الیکشن تو کرا ہی نہیں سکتے آپ تو غیر جماعتی کرا سکتے ہیں اس لیے غیر جماعتی کی بات ہونی چاہیے۔‘  

وجاہت مسعود کے مطابق ’سیاست دانوں کو گالی دینے کا عمل 85 کے غیر جماعتی انتخابات میں عملی شکل بن گیا‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

مجیب الرحمان شامی نے بتایا کہ ’ضیا الحق کہنے لگے کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ جس دن آپ نے جماعتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو گیند جماعتوں کی کورٹ میں چلی جائے گی وہ اپنی شرائط لگائیں گی اور جب آپ اُن کی شرائط پوری نہیں کر سکیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، جب وہ یہ کہیں گے تو آپ خالی ہاتھ ہو جائیں گے کیونکہ آپ کے انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔‘  
مجیب الرحمان شامی نے انٹرویو میں مزید بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے صحافی صلاح الدین کو بھی اپنی تجویز پر راضی کیا۔ اس کے بعد ضیا الحق نے انہیں مشورے کے لیے بلایا جہاں زیڈ اے سلہری، محمد صلاح الدین، ضیا الاسلام انصاری اور ابن حسن موجود تھے۔‘
’اب میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فیصلہ میں نے کرایا لیکن تب ابھی تک وہ گومگو کی کیفیت میں تھے، ان کی خواہش تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور کوشش تھی کہ انہیں اس کی سپورٹ مل جائے۔ میرے ساتھ ان کی گفتگو نے انہیں ایک کلیریٹی دی اور وہ اس راستے پر چل پڑے۔‘  
مجیب الرحمان شامی کے اس مشورے اور اس کے قومی سیاست پر اثرات کے حوالے سے جب اردو نیوز نے ان سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’1977 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے جس کے بعد مارشل لا آگیا۔ جنرل ضیا الحق انتخابات کرانے کو تیار نہیں تھے، انہیں سیاسی جماعتوں کا خوف محسوس ہو رہا تھا تو ایسے میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوتے تو محاذ آرائی شروع ہو جاتی۔‘

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 100 کے قریب شقیں شامل کر کے ضیا الحق آئین کو بہت حد تک صدارتی بنا چکے تھے (فائل فوٹو: فلِکر)

’یہ بات جب زیرِبحث آئی تو میری رائے یہ تھی کہ انتخابات نہ کرانے سے بہتر ہے کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہی ہو جائیں۔ اعلان کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان اس میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔‘
 سینیئر صحافی نے کہا کہ ’اس کے نتیجے میں اسمبلی میں وہ لوگ پہنچے جو پیپلز پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے تھے یا آزاد تھے۔ پھر انہی آزاد ارکان کی مدد سے جماعت بنی اور محمد خان جونیجو کا بطور وزیراعظم انتخاب ہوا۔‘  
اس سوال پر کہ کیا آج انہیں لگتا ہے کہ ان کے مشورے سے ملکی سیاست کو نقصان ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’ضیا الحق نے یہ سب صرف میرے مشورے پر تو نہیں کیا تھا جبکہ میں چاہتا تھا کہ ملک میں انتخابات ہو جائیں اور ایک سیاسی عمل کا آغاز ہو۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت جو سیاسی عمل شروع ہوا وہ 1999 تک جاری رہا اور پھر پرویز مشرف آگئے، لیکن یہ بات بھی ہے کہ اس سے نقصانات بھی ہوئے اور غیر سیاسی عناصر پارلیمنٹ میں آگئے۔‘  
غیر جماعتی انتخابات کا نقصان  
ان غیر جماعتی انتخابات نے پاکستانی سیاست پر کیسے اثرات مرتب کیے اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ ’1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام ہے اور آئین کے مطابق سیاسی جماعت بنانا اور اس میں شمولیت اختیار کرنا ہر شہری کا حق ہے۔‘  

مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’ضیا الحق کو غیرجماعتی انتخابات کرانے کا مشورہ دینے والوں میں وہ بھی شامل تھے‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

’سنہ 85 میں اس وقت کی سپریم کورٹ نے جنرل ضیا الحق کو آئین میں ترامیم کا اختیار دے دیا تھا۔ اس لیے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 100 کے قریب شقیں شامل کر کے ضیا الحق آئین کو بہت حد تک صدارتی بنا چکے تھے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ان انتخابات سے سیاست میں فرقہ واریت، ذات برادری اور لسانیت کا آغاز ہوا کیونکہ جیتنے والے امیدواروں کا کوئی منشور تو تھا نہیں کیونکہ وہ تو سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ اس سے کالعدم تنظیموں کے افراد بھی اسمبلیوں میں پہنچے اور سیاسی عمل غیر سیاسی ہوا۔‘  
’ایوب خان نے سنہ 58 میں سیاست دانوں کو گالی دینے کے جس عمل کا آغاز کیا تھا وہ 85 کے غیر جماعتی انتخابات میں عملی شکل بن گیا۔ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے حالانکہ ان کا کام قانون سازی ہے نہ کے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرانا، یہ بلدیاتی نمائندوں کا کام ہے۔ اس سے ملک میں سیاسی بدعنوانی اور کرپشن کا آغاز ہوا۔‘  
بینظیر بھٹو کو بھی ان غیر جماعتی انتخابات کے مضمرات کی سمجھ آ گئی تھی اور بعد میں انہوں نے بائیکاٹ کو غلطی قرار دیا۔
ان انتخابات کے ذریعے جنرل ضیا الحق نے عوامی نمائندوں کو اقتدار میں شریک کیا تھا انہیں منتقل نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ یہ کمزور اسمبلی بھی برداشت نہ کر پائے اور انہوں نے 29 مئی 1988 کو اسمبلیاں توڑ دیں اور اپنے ہی منتخب کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا۔  
کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست کے نشیب و فرار دیکھنے والے سینیئر صحافی نصرت جاوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ضیا الحق کو کوئی اسمبلی نہیں بلکہ ایک مجلس شوریٰ چاہیے تھی۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتیں نہیں ہیں تو کنٹرول کرنا آسان ہو گا لیکن بات غلط ہی نکلی اور ان کے لیے چیزیں کنٹرول کرنا مشکل ہو گئیں تبھی تو محمد خان جونیجو کو گھر بھیجنا پڑا۔‘ 

شیئر: