Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

این اے 53، جب دو بچے چوہدری نثار کے مقابلے میں میدان میں اُترے 

چوہدری نثار کا شمار نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
’یہ 25 جون 2018 کا ایک گرم دن تھا جب ہم راولپنڈی سے لاہور پارٹی ٹکٹ وصول کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میں بھی اپنے بابا کے ساتھ لاہور جا رہا تھا۔‘
’وہاں ہم نے مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر سے ٹکٹ حاصل کرنا تھا۔ ہم ابھی ماڈل ٹاؤن نہیں پہنچے تھے جب قومی احتساب بیورو (نیب) سے کال آئی کہ آپ سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے۔‘
’اس لیے آپ نیب کے دفتر پہنچ جائیں۔ ہم لوگ نیب کے دفتر پہنچے تو بابا اندر چلے گئے اور میں باہر گاڑی میں انتظار کرنے لگا۔ گھنٹوں گزر گئے لیکن وہ باہر نہ آئے اور بالآخر مجھے اپنے گھر سے کال موصول ہوئی کہ بابا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘ 
یہ کہنا ہے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور این اے 53 سے امیدوار انجینیئر قمرالاسلام راجا کے بیٹے سالار قمرالاسلام کا جنہوں نے اپنی بہن اسوہ اسلام کے ساتھ مل کر 2018 میں اپنے والد کی انتخابی مہم چلائی تھی۔  
اُن دنوں بھی پاکستان کی سیاست ڈرامائی انداز سے آگے بڑھ رہی تھی۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان پارٹی سے راہیں جُدا کر چکے تھے۔
انہوں نے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مسلم لیگ ن نے بھی بڑے سوچ بچار کے بعد اپنے سابق رکن صوبائی اسمبلی انجینیئر قمرالاسلام راجا کو ان کے مقابلے میں میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا تھا۔  
انتخابات میں ابھی پورا ایک ماہ باقی تھا کہ انجینیئر قمرالاسلام راجا کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے ٹھیک دو دن بعد 12 برس کے سالار اور 15 برس کی اسوہ ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے کلر سیداں سے راولپنڈی اپنے والد کا پارٹی ٹکٹ جمع کرانے پہنچے۔
اس وقت ہر طرف یہی کہا جا رہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ اب دو بچوں سے ہے۔  
انتخابات ہوئے اور اس حلقے کا نتیجہ توقعات کے بالکل برعکس آیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرور خان 89 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر جیت گئے جبکہ چوہدری نثار علی خان نے 66 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ انجینیئر قمرالاسلام راجا صرف 21 ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔  

اس حلقے سے چوہدری نثار علی خان ایک بار پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)

8 فروری 2008 کو ہونے والے ان انتخابات میں اس حلقے کو این اے 53 کا نام دیا گیا۔
راولپنڈی کے کچھ علاقوں، بحریہ ٹاؤن، لالہ زار، مورگاہ، اڈیالہ روڈ اور نواحی علاقوں چونترہ اور چک بیلی خان پر مشتمل اس حلقے سے چوہدری نثار علی خان ایک بار پھر بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے انجینیئر قمرالاسلام راجا کو ٹکٹ دیا ہے۔  
تاہم اس بار ان دونوں امیدواروں کے لیے صورتِ حال کچھ مختلف نہیں، تاہم تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان حلقہ اور پارٹی دونوں چھوڑ چکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اجمل صابر راجا کے پاس انتخابی نشان بلا موجود نہیں ہے۔  
اس کے ساتھ ہی انجینیئر قمرالاسلام اس بار خود انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ان کی پارٹی اور دھڑا بھی ان کے ساتھ ہے۔
سنہ 2018 میں ان کی انتخابی مہم چلانے والے ان کے بچے اب سیاسی میدان میں کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔  
قمرالاسلام راجا کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کی ہے کہ اگر کبھی مشکل وقت آجائے تو ان کے اعصاب مضبوط رہیں اور وہ اس صورت حال کا مقابلہ کر سکیں۔ 
’جس طرح میرے بچوں نے 2018 میں میری انتخابی مہم چلائی تھی اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کا حصول ان کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کے غلام سرور خان 89 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر اس حلقے سے جیت گئے تھے (فائل فوٹو: اے پی پی)

’اس لیے جب میں خود میدان میں موجود ہوں تو ان کو اس عمل سے دور رکھنا ہی مناسب ہے تاکہ ان کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔‘ 
اس حوالے سے ان کے صاحبزادے سالار قمرالاسلام کا کہنا ہے کہ ’بابا اکثر کہتے تھے کہ انسان کو فولادی اعصاب کا مالک ہونا چاہیے۔ جب بابا کو گرفتار کر لیا گیا تو یہ ہمارے لیے ایک نئی صورت حال تھی۔‘
’تاہم ہم نے اس وقت ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنے لوگوں کو پیغام دیا کہ ہم خود میدان میں نکلیں گے۔ ہمیں پذیرائی بھی ملی اور میں نے جلسے بھی کیے لیکن انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے ہم جیت نہ سکے۔‘  
سرکاری ملازمت سے وزارت تک، انجینیئر قمرالاسلام ایک غیر روایتی سیاست دان
ضلع راولپنڈی کے گاؤں بھکڑال کلرسیداں میں پیدا ہونے والے قمرالاسلام راجا کا خاندان روایتی طور پر کوئی سیاسی خاندان نہیں ہے۔
چار نسلوں سے ان کے خاندان کے افراد سرکاری ملازمتوں بالخصوص فوج، پولیس اور تعلیم جیسے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ 
ان کے والد ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ہیڈ کلرک تھے اور والدہ سرکاری سکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ 
ان کی عمر اس وقت محض چھ برس تھی جب والد چل بسے جس کے بعد ان کی والدہ اور دادا نے ان کی پرورش کی۔

قمرالاسلام راجا مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ کریں گے (فائل فوٹو: قمرالاسلام ایکس اکاؤنٹ)

انہوں نے انجینیئرنگ یونیورسٹی لاہور سے سول انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی جب کہ پنجاب یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
 اس کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی اور ایم فل کیا اور بعد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 
انجینیئر قمرالاسلام راجا نے مختلف مقابلوں کے امتحانات میں بھی حصہ لیا اور سول سروس کا امتحان پاس کیا جس کے بعد کچھ اہم عہدوں پر فائز رہے۔  
انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز 2007 میں کیا اور 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔ 
اس وقت جب وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کو واضح برتری حاصل ہوئی تو مسلم لیگ ق نے صوبائی اسمبلی کی واحد نشست راولپنڈی سے حاصل کی جو انجینیئر قمرالاسلام راجا کی تھی۔ 
 اس کے بعد انہوں نے فروری 2009 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد گورنر راج نافذ کر دیا گیا مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور دوسری مرتبہ رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔  
پنجاب میں مسلم لیگ ن نے ان کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین کی ذمہ داری دی۔ وہ پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین کے طور پر بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔  

پی ٹی آئی کے امیدوار اجمل صابر راجا ’چارپائی‘ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں (فائل فوٹو: اجمل صابر راجا فیس بُک پیج)

سنہ 1985 سے 2018 تک این اے 53 سے صرف ایک بار شکست کھانے والے چوہدری نثار علی خان 
چودھری نثار علی خان 1985 سے حلقہ این اے 52 موجودہ این اے 53 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ 
ان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تھا تاہم 2018 سے وہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ 2008 سے 2013 تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔ 
وہ راولپنڈی کے نواحی گاؤں چکری میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1979 میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بننے سے کیا۔ وہ ضیا الحق کے دور میں نواز شریف کے قریب ہو گئے۔ 
وہ پہلی بار 1985 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 52 راولپنڈی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
سنہ 1988 کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جس کے بعد انہیں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کیا گیا۔
سنہ 1990 کے عام انتخابات میں تیسری بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے کے بعد وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل بنائے گئے۔
وہ 1993کے عام انتخابات میں اسی حلقہ سے چوتھی بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ 

چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں حلف نہیں اٹھایا (فائل فوٹو: اے پی پی)

وہ 1997 کے عام انتخابات میں پانچویں بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور دوسری بار وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے عہدے پر تعینات ہوئے۔
وہ اکتوبر 1999 تک اس عہدے پر تعینات رہے جب پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹا۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد چوہدی نثار علی خان کو کئی ہفتوں تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ 
وہ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن میں سب سے طاقتور آدمی بن گئے کیونکہ وہ نواز شریف کے وفادار ساتھیوں میں نمایاں تھے جنہوں نے پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کو زندہ رکھا۔  
سنہ 2002 کے عام انتخابات میں وہ چھٹی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، تاہم وہ حلقہ  این اے 53 راولپنڈی سے الیکشن ہار گئے۔ 
وہ 2008 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 52 اور حلقہ این اے 53 دونوں سے ساتویں مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
بعد ازاں نثار علی خان نےاین اے 52 کی نشست خالی کر کے این اے 53 کی نشست اپنے پاس رکھی۔
این اے 52 سے نواز شرہف کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو ضمنی انتخاب لڑوایا گیا جہاں سے وہ کامیاب ہوئے۔  
چوہدری نثار، یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں مارچ 2008 میں وفاقی وزیر برائے خوراک، زراعت اور لائیو سٹاک اور وفاقی وزیر برائے مواصلات رہے۔

چوہدری نثار کو عمران خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت کی پیش کش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم حکومت چھوڑنے کے فیصلے کی وجہ سے ان کی وزارت کی مدت مختصر رہی۔ 
ستمبر 2008 میں چوہدری پرویز الٰہی کے مستعفی ہونے کے بعد انہیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مقرر کیا گیا۔ اکتوبر 2011 میں وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی بن گئے۔  
سنہ 2013 میں وہ ایک بار پھر اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور نواز شریف کابینہ میں وزیر داخلہ بنائے گئے۔
28 جولائی 2017 کو پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد ان کی وزارت بھی ختم ہوگئی۔ وہ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا حصہ نہیں بنے۔  
 چوہدری نثار علی خان ستمبر 2017 تک قومی اسمبلی کے سب سے طویل عرصے تک مسلسل منتخب ہونے والے رکن تھے، جو 1985 کے انتخابات کے بعد سے آٹھ بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔  
فروری 2018 میں عمران خان نے چوہدری نثار علی خان کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔
انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی نامزدگی طلب کرنے کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور شریف برادران کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
وہ قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 59 اور این اے 63 راولپنڈی سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے مگر ان دونوں نشستوں سے ہار گئے۔
وہ پنجاب اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر انہوں نے چار برس تک صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر حلف نہیں اٹھایا۔

شیئر: