پاکستان کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس کے نتیجے میں سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان ’بلا‘ اس سے واپس لے لیا گیا تھا۔
سنیچر کی رات گئے سنائے گئے فیصلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کروائے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی سے انتخابی نشان ’بلا‘ چھن گیا ہے اور اب اس کے امیدواروں کو دیگر انتخابی نشانات پر بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لینا ہو گا۔
اس کا فوری مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی آٹھ فروری 2024 کے انتخابات بطور جماعت کے شناخت ختم ہو گئی ہےاور اب اس کے ووٹرز کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے بیلٹ پیپر پر کافی سوچ سمجھ کر مہر لگانا پڑے گی کیونکہ ہر حلقے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات مختلف ہو سکتے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد بظاہر یہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی عملی طور پر انتخابات سے باہر ہو گئی ہے اور اب اس کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم پی ٹی آئی اس صورت حال کے لیے تیار تھی اور اس نے بلے کے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مختلف حکمت عملیاں بنا رکھی ہیں۔
ان حکمت عملیوں میں سے ایک پر سنیچر کے روز عمل درآمد کا آغاز بھی کیا گیا جس کے تحت تحریک انصاف سے الگ ہونے والی ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف (نظریاتی) کے انتخابی نشان ’بلے باز‘ کے ٹکٹ اپنے امیدواروں کو جاری کیے گئے اور انہیں کہا گیا کہ یہ ٹکٹ ریٹرننگ افسران کو جمع کروائے جائیں۔
اس کے بعد ایک طرف تو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹی فیکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی جماعت سے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اور دوسری جماعت کا امیدوار نہیں بن سکتا۔

اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی (نظریاتی) کے سربراہ اختر اقبال ڈار نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیے۔
تاہم ان کی نیوز کانفرنس کے فوری بعد پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا کہ ان کی جماعت کے چیئرمین گوہر علی خان اور اختر اقبال ڈار نے پی ٹی آئی اسلام آباد کے سیکریٹیریٹ میں ٹکٹ جاری کرنے کے لیے باقاعدہ ایک معاہدہ کیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’اس معاہدے کے تحت پی ٹی آئی نظریاتی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی گئی ہے اور شیخوپورہ سے ان کے چار امیدواروں کو ٹکٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔‘
رؤف حسن کے مطابق اگرچہ ان کا یہ خدشہ ہے کہ اختر ڈار کی پریس کانفرنس بھی کئی دوسرے رہنماؤں کی طرح دباؤ ڈال کر کروائی گئی ہے۔‘
’تاہم وہ اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور پارٹی یقینی بنائے گی کہ اس کے امیدوار کامیاب ہوں۔‘
