Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز خٹک کی پارٹی نے 190 میں سے صرف 67 سیٹوں پر امیدوار کیوں اتارے؟

انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے امیدواروں نے پشاور میں اپنے بینرز آویزاں کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی پی) کی جانب سے خیبر پختونخوا کے 145 صوبائی اور 45 قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے صرف 67 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان الاٹ ہو گئے تاہم پی ٹی آئی پی کی جانب سے تمام حلقوں پر امیدواروں کے حتمی نام سامنے نہ آ سکے۔ سربراہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز پرویز خٹک نے 145 صوبائی حلقوں کے لیے صرف 52 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے جبکہ 45 قومی نشستوں پر 15 امیدواروں کے نام سامنے آئے۔
پرویز خٹک خود نوشہرہ کی دو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے دو بیٹے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک صوبائی سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے۔ سابق وزیراعلٰی محمود خان کو سوات سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ جاری ہوا ہے۔ اسی طرح 10 خواتین امیدواروں کے لیے بھی پارٹی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز پشاور کے 13 صوبائی حلقوں پر سات اور قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر صرف ایک ہی ٹکٹ جاری کر سکی ہے جبکہ بہت سے حلقوں پر اب بھی امیدوار موجود نہیں ہیں۔

امیدواروں کے نام جاری کرنے میں تاخیر کیوں؟

پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے ترجمان ضیاء اللہ بنگش نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امیدواروں کی حتمی فہرست ہم نے جاری نہیں کی تاہم کل تک امیدواروں کے نام میڈیا سے شیئر کر دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کے پاس امیدواروں کی کمی نہیں بلکہ بیشتر حلقوں میں پارٹی ٹکٹ کے خواہشمندوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی پی نے مزید کہا کہ ان امیدوار کو میدان میں اتاریں گے جن کا اپنا ووٹ بینک ہو اور حلقے میں ان کی پوزیشن بھی اچھی ہو۔

جولائی 2023 میں پرویز خٹک نے اپنی پارٹی کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کیا پرویز خٹک کے پاس امیدوار نہیں؟

خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کی جماعت کے پاس لوگ نہیں کیونکہ ان کی جماعت کو قیام میں آئے ایک سال بھی نہیں ہوا اور دوسری بات یہ کہ ان کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی سے لوگ چھوڑ کر ان کی جماعت کی طرف آئیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
’پی ٹی آئی کے بیشتر رہنماؤں پر کیسز بنے اور تاحال روپوش ہیں مگر وہ عمران خان کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔‘
مشتاق یوسفزئی کے مطابق پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں شامل کئی رہنما خود تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ انہیں جس طرح اس پارٹی میں شامل کیا گیا وہ سب کو معلوم ہے۔
انہوں نے مزید کہا پرویز خٹک نے اپنے حلقے میں بہت سے ترقیاتی کام کیے اور سرکار کا بہت پیسہ لگایا جس کی وجہ سے ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں نئے چہرے یا پھر غیر معروف رہنما شامل ہوئے۔ ابھی تک کوئی بڑی سیاسی شخصیت اس جماعت میں نہیں آئی۔

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے نشانات الاٹ کر دیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مشتاق یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ پرویز خٹک کا جمعیت علما اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی سے اتحاد کے مذاکرات بھی ناکام ہوئے لیکن عین ممکن ہے کہ الیکشن کے بعد اتحاد بن جائے۔ ’پرویز خٹک کی کوشش ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار یا ضم قبائلی اضلاع کے امیدواروں کو اپنے ساتھ شامل کرکے حکومت بنائے۔‘
ان کے مطابق پرویز خٹک کی پارٹی کا منصوبہ کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا اور یہ احساس اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہو چکا ہے۔ ’میرا خیال ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سے امیر حیدر خان ہوتی یا پھر جمیعت علما اسلام میں سے کوئی وزیراعلی کا امیدوار ہو گا۔‘
واضح رہے عوامی نیشنل پارٹی نے 20، پیپلز پارٹی نے 14 مسلم لیگ نے 10 اور جے یو آئی نے پانچ صوبائی حلقوں پر امیدوار کھڑے نہیں کیے۔
پرویز خٹک نے 9 جنوری کو پارٹی منشور کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جماعت کی طرف سے صوبائی حلقوں کے لیے 70 سے زائد امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔

شیئر: