Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان ایران کشیدگی: سرحدی علاقوں کے رہائشی خوفزدہ

پاکستان نے سرحد کے قریب تقریباً سات اہداف کو نشانہ بنایا۔ (فوٹو: روئٹرز)
ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی سے سرحدی علاقوں کے رہائشی خوف زدہ جبکہ تاجر اور ایرانی تیل کا کام کرنے والے مزدور پریشان ہیں۔
منگل کو ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پہاڑی علاقے کوہ سبز میں میزائل حملے کئے گئے جس میں دو بچے ہلاک اور خاتون اور بچوں سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔
اس کارروائی پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا اور سنگین نتائج کے لیے خبردار کیا اور 48 گھنٹے کے اندر جمعرات کی علیٰ الصبح جوابی کارروائی کی۔
پاکستان نے پنجگور سے ہی متصل ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے ضلع سراوان میں داغے گئے میزائل حملوں میں بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے کم از کم پانچ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایران نے اس کارروائی میں نو غیرایرانی باشندوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ، جو بلوچ علیحدگی پسندوں مسلح تنظیموں کی حامی سمجھی جاتی ہے، کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ’ایران میں میزائل حملوں میں بلوچ مہاجرین نشانہ بنے۔‘
بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان نے سرحد کے قریب تقریباً سات اہداف کو نشانہ بنایا تاہم ان حملوں میں سب سے زیادہ نقصان جس علاقے میں ہوا وہ سراوان کا علاقہ شمے سر اور حق آباد کہلاتا ہے۔
حق آباد پاکستانی ضلع پنجگور سے تقریباً 100 کلومیٹر دور تحصیل پروم کے قریب واقع ہے۔ پروم کے ایک مقامی رہائشی محمد ظاہر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حق آباد پہلے شمے سر کہلاتا تھا اور پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کی حد بندی سے قبل یہ پاکستانی حدود میں آتا تھا۔‘
ایران کی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے سرحد کے قریب رہنے والے افراد خوف زدہ ہیں۔
ظاہر بلوچ کے مطابق ’پاکستان اور ایران کی کشیدگی سے سرحد کے قریب رہنے والے تمام لوگ کافی پریشان ہیں۔ چند برس قبل تک ایران کی سے جانب مارٹر گولے داغے جاتے تھے یا کبھی اس کی جانب سے فائرنگ ہوتی تو پاکستانی اہلکار بھی جوابی فائرنگ کرتے۔ اس دوران کئی بار مقامی آبادی بھی ان کا شانہ بنتی اور جانی نقصان اٹھاتی۔‘
’اب کچھ برسوں سے صورتحال بہتر تھی مگر ایران کی جانب سے جارحانہ اقدام نے دوبارہ خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس سے سب سے زیادہ سرحد کے قریب رہنے والی آبادی متاثر ہو گی۔‘

ایران کی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے سرحد کے قریب رہنے والے افراد خوف زدہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پروم کے ایک اور رہائشی رحیم بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں کی طرح یہ سرحدی علاقہ بھی زیادہ تر خشک اور بنجر ہے اور زراعت بہت کم ہے۔ ایرانی تیل کے علاوہ یہاں کاروبار کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تین چار برسوں سے صورتحال بہتر تھی، اب اگر کشیدگی بڑھ گئی تو ہمیں خطرہ ہے کہ ایک بار پھر مقامی آبادی اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ اسی طرح سرحد پر آمدروفت میں رکاوٹیں اور ایرانی تیل کے کاروبار پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔‘
پروم کی سرحد پر تعینات ایک پاکستانی لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد ایران نے جمعرات کو پروم کے مقام پر سرحد کو کئی گھنٹے بند رکھا۔ تاہم شام کو آمدورفت بحال ہو گئی۔‘
محکمہ داخلہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق ایران کے ساتھ کشیدگی کے باوجود پنجگور میں چیدگی کراسنگ پوائنٹ کے ساتھ ساتھ صوبے کے باقی اضلاع میں تفتان میرجاوا، گوادر میں گبد رمدان، کیچ میں مند پیشین سرحد پر معاملات متاثر نہیں ہوئے۔ آمدروفت اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہیں۔
’تفتان میرجاوا سرحد سے جمعرات کو دو سو سے زائد تجارتی گاڑیوں کی آمدروفت ہوئی۔‘

رحیم بلوچ کے مطابق بلوچستان کے بیشتر علاقوں کی طرح یہ سرحدی علاقہ بھی زیادہ تر خشک اور بنجر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سے پنجگور سمیت ایرانی سرحد سے متصل سرحدی اضلاع کیچ، گوادر، واشک اور چاغی کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ ایرانی تیل کا کام کرنے والے بھی پریشان ہیں۔
پنجگور میں تیل کا کام کرنے والے مشتاق احمد نے بتایا کہ پاک ایران سرحد پر ایرانی تیل کی ترسیل ایک خصوصی اجازت نامے کے ذریعے ہوتی ہے جو ٹوکن کہلاتا ہے۔ ٹوکن رکھنے والا شخص 30 سے 45 دنوں میں ایک بار ایرانی سرحد سے ایک پک اپ گاڑی بھر کر ایرانی تیل پاکستان لا سکتا ہے جس سے وہ 60 سے 80 ہزار روپے تک کما لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک تو زیادہ مسئلہ نہیں بنا لیکن سرحد پر کشیدگی برقرار رہی تو پھر یہ کاروبار جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان نے افغانستان کے بعد ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد کے ایک بڑے حصے پر باڑ کا کام مکمل کر لیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں اور سمگلروں کی آمدروفت اور غیرقانونی تجارتی سرگرمیوں کی روک تھام کر سکے۔
کیچ میں ایرانی سرحد پر تعینات ایک پاکستانی سیکورٹی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’باڑ لگنے سے سرحد پر غیرقانونی سرگرمیوں اور آمدروفت میں کمی آئی ہے تاہم ندی نالوں کی وجہ سے باڑ کو نقصان پہنچنے یا پھر دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں بعض مقامات اب بھی ایسے ہیں جہاں سے غیرقانونی نقل و حرکت کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ مسلح تنظیمیں اٹھاتی ہیں۔‘

کیچ، گوادر، واشک اور چاغی کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ ایرانی تیل کا کام کرنے والے بھی پریشان ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ دشوار گزار سرحد پر مسلح تنظیمیں کی کارروائیاں دونوں ممالک کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
’ایران جیش العدل کے ٹھکانوں کی پاکستان میں موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے تو بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی ایران میں پناہ لینے کی شکایات پاکستان کو بھی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے کبھی ایران کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ انداز نہیں اپنایا۔ اس کے برعکس ایران نے کئی بار اشتعال انگیز اقدامات کئے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں وہ کئی بار سرحدی خلاف ورزیاں کر چکا ہے۔‘
جلال نورزئی کے مطابق ’چند برسوں پہلے تک تو فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزیاں روزانہ کا معمول تھا۔ ماشکیل، پنجگور، تفتان، مند اور تمپ میں آئے روز مارٹر گولے داغے جاتے تھے جس سے کئی بار نہ صرف شہری بلکہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاکت ہوئے۔‘
’اسی طرح ایرانی فورسز نے پاکستانی حدود کے اندر بھی داخل ہو کر پاکستانی شہریوں کی گرفتاریاں کیں۔ ایک بار تو 10، 11 ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کو پاکستانی حدود سے گرفتار کیا گیا مگر پاکستان نے انہیں رہا کیا اور معاملے کو نہیں بڑھایا۔‘

پاکستان نے سراوان میں داغے گئے میزائل حملوں میں کم از کم پانچ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

جلال نورزئی نے کہا کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ مکران ڈویژن کے اضلاع گوادر، کیچ اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز پر کئی بڑے حملوں کے بعد پاکستان نے الزام لگایا کہ عسکریت پسند کارروائی کر کے ایران فرار ہوگئے۔ تب بھی کوئی جارحانہ اقدام اٹھانے کی بجائے پاکستان نے سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھایا۔
انہوں نے مزید کہا ایران نے اس بار نہ صرف جارحیت کی بلکہ اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کیا جس کے بعد پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کرنے کے سوا کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا-

تجارت پر اثرات

پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر ہے اور دونوں ممالک نے گذشتہ برس اسے پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے گذشتہ برس پاکستان اور ایران نے بلوچستان میں گبد رمدان اور مند پشین کی دو سرحدی منڈیوں کو فعال کیا اور چار مزید بارڈر مارکیٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت کا معاہدہ کیا تھا۔
ایرانی حملے کے وقت پاکستان اور ایران کی سرحدی تجارتی کمیٹی کا اجلاس ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں طے تھا تاہم پاکستان نے احتجاجاً اجلاس منسوخ کر کے اپنا وفد واپس بلا لیا تھا۔

دونوں ممالک نے گذشتہ برس سالانہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

حالیہ کشیدگی پر کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر بدر الدین کاکڑ نے کہا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ ختم نہ ہوا تو اس کے اثرات تجارت پر بھی پڑیں گے جس سے صرف کاروباری طبقے کو ہی نہیں بلکہ عام لوگوں اور دونوں ممالک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سب سے زیادہ سرحدی علاقے کے لوگ متاثر ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری کئی صنعتوں کا انحصار ایران سے درآمد ہونے والے خام مال پر ہے۔ ایران سے پیٹرو کیمیکل، ایل پی جی، سیمنٹ، ٹائلز، سریا، تیل، بسکٹ اور دیگر خوردنی اشیا پاکستان آتی ہیں جبکہ پاکستان چاول، کینو وغیرہ ایران برآمد کرتا ہے۔‘
بدر الدین کے مطابق ’پہلے ہی افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت بلوچستان کے راستے کئی ماہ سے بند ہے۔ جس کی وجہ سے ہوٹل، ٹرانسپورٹ سمیت کئی شعبوں کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اگر دوسرے ہمسائیہ ملک کے ساتھ بھی تجارت بند ہو گئی تو اس سے بلوچستان میں لوگوں کے لیے مزید معاشی پیدا ہوں گی۔‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فدا حسین دشتی کا کہنا تھا کہ ’ایران پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو بڑھانا چاہتا ہے لیکن پاکستانی حدود کے اندر جارحانہ کارروائی نے نہ صرف دونوں ممالک کے سیاسی، سفارتی و سماجی تعلقات بلکہ باہمی تجارت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں 25 فیصد ایل پی جی گیس ایران سے آتی ہے اور پاکستانی تاجروں نے پیشگی ادائیگی کی ہے، اگر سرحد پر صورتحال مزید خراب ہوئی تو تاجروں کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔‘

شیئر: