’مشینوں کا شور موسیقی جیسا‘، انڈیا میں ’انجینیئروں کا گاؤں‘
’مشینوں کا شور موسیقی جیسا‘، انڈیا میں ’انجینیئروں کا گاؤں‘
بدھ 24 جنوری 2024 5:29
راحِل مرزا -نئی دہلی
گاؤں پٹوا ٹولی سے ہر سال کم سے کم ایک درجن طلبہ آئی آئی ٹی کے امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں (فائل فوٹو: ٹائمز ناؤ)
انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان کا شہر ’کوٹا‘ میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز میں داخلے کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں ملک بھر میں ممتازحیثیت رکھتا ہے۔
شاید اسی لیے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ملک کے طول و عرض سے کامیاب مستقبل کا خواب سجائے یہاں پہنچتے ہیں۔
بظاہر انہی وجوہات سے اسے ملک کے ’کوچنگ کیپیٹل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ شہر اس کے لیے پوری طرح سے تیار نظر آتا ہے۔
انجینیئرنگ کے داخلے کے لیے جوائنٹ انجینیئرنگ اگزام یا ’جے ای ای‘ دو حصوں میں ہوتا ہے جس میں کامیابی کے بعد ملک کے اعلٰی ترین انجینیئرنگ کالجز آئی آئی ٹی میں داخلہ ملتا ہے۔
بہرحال یہ سول سروسز کے بعد انڈیا کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک مانا جاتا ہے کیونکہ اس کے چاہنے والے لاکھوں میں ہوتے ہیں جبکہ سیٹیں محض چند ہزار ہیں۔
لیکن ہم یہاں کوٹا کی نہیں بلکہ وہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دُور شمال مشرقی ریاست بہار کے ایک ایسے گاؤں کی بات کر رہے ہیں جس کی آبادی محض 800 گھروں پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی وہاں سے ہر سال کم سے کم ایک درجن طلبہ آئی آئی ٹی کے اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔
مسابقتی امتحانات کی تیاری اور ملک بھر میں پھیلے بہتر کوچنگ انتظامات کی موجودگی میں یہ اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔
یہ گاؤں بہار کے ضلع گیا کے مضافات میں واقع مانپور پٹوا ٹولی ہے جہاں گذشتہ سال 45 بچوں نے اس مشکل ترین امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
ایک گاؤں سے اتنے زیادہ طلبہ کا ایسے اہم مسابقتی امتحان میں کامیاب ہونا کسی کرشمے سے کم نہیں، لیکن اس کے پسِ پشت گاؤں کے لوگوں اور وہاں برقرار نظم و ضبط کا بڑا کردار ہے۔ پٹوا ٹولی ’آئی آئی ٹی والوں کا گاؤں‘ کیسے بنا؟
پٹوا ٹولی روایتی طور پر بنکروں کا ایک گاؤں ہے جہاں بیشتر لوگ بنکر (کپڑے بُننے) کا کام کرتے رہے ہیں۔ کوئی تیس سال قبل تک یہ بستی تعلیمی لحاظ سے پسماندہ مانی جاتی تھی۔
تاہم 1991 میں جتندر کُمار نام کے ایک شخص نے جب انجینیئرنگ کے داخلے کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اور آئی آئی ٹی (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) پہنچے تو ان کی کامیابی کا جشن پوری پٹوا برادری میں منایا گیا۔ وہ اپنے گاؤں کے پہلے طالب علم تھے جو آئی آئی ٹی پہنچے تھے۔
نئی دہلی کے آئی آئی ٹی سے گریجویشن مکمل کرنے والے بہار کے آدرش کمار نے ایک مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جتندر کمار جب بھی سیمسٹر کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے تو وہ بچوں کو انجینیئرنگ اور اس کے فوائد کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔‘
’جب ان کیمپس پلیسمنٹ کے تحت امریکہ میں ملازمت ملی تو وہ گاؤں والوں کے لیے کامیابی کی ایک مثال بن گئے۔‘
ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی شخص آلوک کمار نے بتایا کہ ’اس وقت اُن کے گاؤں کے کم سے کم 25 خاندان آئی آئی ٹی سے انجینیئرنگ مکمل کرنے کے بعد امریکہ میں آباد ہیں۔‘
ایک ایسا بھی وقت تھا جب جتندر کے بعد سات برسوں تک کسی کو کامیابی نہیں ملی، لیکن 1998 وہ سال رہا جب کامیابی گاؤں والوں کا ایک طرح سے مقدر بن گئی کیونکہ اس سال تین بچوں کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
اس کے اگلے سال یعنی 1999 میں بنکر سماج کے سات طالب علموں کی آئی آئی ٹی تک رسائی ہوئی جس کے بعد سے بنکروں کا یہ گاؤں آئی آئی ٹی والوں کا گاؤں کہلانے لگا۔
گذشتہ 26 برسوں میں پٹوا ٹولی نے 300 سے زیادہ انجینیئرنگ گریجویٹس تیار کیے جن میں سے ایک تہائی آئی آئی ٹی کے گریجویٹ ہیں۔
پٹوا ٹولی کے بارے میں ایک مزاحیہ جملہ کہا جاتا ہے کہ اندھیرے میں بھی اگر پٹوا ٹولی کی طرف کوئی پتھر پھینکا جائے تو وہ کسی نہ کسی انجینیئرنگ گریجویٹ کے گھر پر جا لگے گا۔
گاؤں کے گریجویٹس نے ’نو پریاس‘ یعنی نئی کوشش نامی ایک تنظیم بنائی اور امتحانات کی تیاری کے لیے مواد اکٹھا کیا اور گاؤں کے لیے لیپ ٹاپس فراہم کیے جو آنے والے طالب علموں کے لیے مددگار ثابت ہوئے۔
اس کے لیے انہوں نے ایک لائبریری قائم کی جس کا نام ’ورکش‘ یعنی درخت رکھا۔ یہ لائبریری ان مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے قائم کی گئی تھی۔
لائبریری کا نظام دیکھنے والے چندر کانت پٹیشوری معروف یوٹیوب چینل للن ٹاپ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جن بچوں کو معاشی تنگی ہے ان کو مفت میں کلاسز فراہم کی جاتی ہیں اور کتابیں بھی دی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سابق گریجویٹس جو اب ملک سے باہر یا ملک میں ملازمت کر رہے ہیں وہ اس تنظیم کے لیے پیسے بھیجتے ہیں اور ان ہی لوگوں کی وجہ سے یہ سارا نظام چل رہا ہے۔‘
چندر کانت پٹیشوری بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے بودھ گیا مٹھ کے احاطے میں ایک اور لائبریری قائم کی ہے جہاں سابق طلبہ کی طرف سے عطیہ کردہ کتابیں اور کاغذی نوٹ جمع کیے گئے ہیں جو آئی آئی ٹی کے خواہش مند طلبہ کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔‘
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم نے ضلعے کی ہر پنچایت میں اس طرح کی مزید لائبریریاں کھولنے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے۔
لائبریری میں صبح نو بجے سے رات آٹھ بجے تک بچے ان امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ چونکہ پٹوا ٹولی بنکروں کا گاؤں ہے اور وہاں کپڑے بُننے والی مشینوں کی مسلسل آوازیں آتی رہتی ہیں جس سے پڑھائی میں خلل پیدا ہونا فطری ہے۔
تاہم وہاں کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ’ان مشینوں کی آوازیں اب ہمارے لیے کسی موسیقی کی طرح ہیں اور ہمیں ان کی عادت ہو گئی ہے۔‘
آئی آئی ٹی کی کوچنگز کے لیے کوٹا یا پھر صوبہ جھارکھنڈ کے بوکارو شہر کو کافی شہرت حاصل ہے، تاہم دونوں شہروں میں اس کی تیاری میں آنے والا خرچ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مالی اعتبار سے کمزور افراد اپنے بچوں کو تیاری کے لیے ان جگہوں پر بھیجنے میں ناکام رہتے ہیں۔
پٹوا ٹولی کے بچوں نے گذشتہ سال اس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب جے ای ای کے امتحانات میں 45 بچوں نے کامیابی حاصل کی جو ایک سال میں کسی بھی گاؤں سے اس امتحان کو پاس کرنے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔
گلشن کمار کی آل انڈیا جنرل رینک 120 رہی ہے اور او بی سی (کیٹیگری) رینکنگ 20 رہی۔ وہ اسی گاؤں سے آتے ہیں اور 2023 کے ٹاپرز میں شامل ہیں۔ ہم نے ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کا جواب موصول نہ ہوا۔
نو پریاس تنظیم کے اوم پرکاش کہتے ہیں کہ ’تیاری اجتماعی طور پر کرائی جاتی ہے اور اس کے لیے ٹیوٹرز کی مدد لی جاتی ہے۔‘
’تاہم اصل مدد سینیئر طلبہ سے ملتی ہے۔ انجینیئر بننے کے خواہش مند طلبہ سے صاف کہہ دیا جاتا ہے کڑی محنت اور مستقل مزاجی کے بغیر کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔‘
ریاست بہار، یو پی ایس سی، (یونین پبلک سروس کمیشن) میں کامیابی کے لیے پہلے سے مشہور ہے۔ پھر پٹوا ٹولی جیسے گاؤں نے تین دہائی سے آئی آئی ٹی تک رسائی کا جیسے ذمہ لے لیا ہو۔
تاہم اب وہاں ایک نیا جنون نظر آتا ہے کیونکہ وہاں کے بچے اب ریاستی اور مرکزی سول سروسز کے امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کرنے لگے ہیں۔
جے ای ای کے مشکل امتحانات کے نتیجے کے دن اب لوگوں کی نظر پٹوا ٹولی پر رہتی ہے لیکن بنکروں کے اس گاؤں کی کامیابی کا راز ان کی مشینوں کی مسلسل آواز کی طرح محنت اور سابق گریجویٹس کی شفقت میں پوشیدہ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ معروف صوفی شاعر کبیر کے دوہے کو اس گاؤں کے دھنیوں نے حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے۔
دھن رے دھنے اپنی دھن، پرائی دھنی کے پاپ نا چن
تیری روئی میں چار بنولے، سب سے پہلے ان کو چن