Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رام مندر کا افتتاح: ’انڈیا میں سیکولر کون ہے؟ کوئی بھی نہیں‘

حکومت نے مندر کی تقریب کو اس طرح پیش کیا کہ حزب اختلاف چاروں شانے چِت نظر آئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے تاریخی شہر ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کی تقریب کو جس طرح وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ملک میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے اس مذہبی تقریب کو اس طرح پیش کیا کہ حزب اختلاف چاروں شانے چِت نظر آئی۔
اپوزیشن کے نئے نئے اتحاد ’انڈیا‘ نے اسے سیاسی تقریب قرار دیا اور اس میں شامل جماعتوں نے مختلف انداز میں اِس سے دوری اختیار کی لیکن کوئی بھی اس کی مخالفت میں براہ راست سامنے نہ آسکا۔
پیر کے دن یعنی 22 جنوری کو انڈیا کے کونے کونے سے ’جے شری رام‘ کے نعروں کی گونج سنائی دی اور اس کی نشریات براہ راست ملک کے تقریباً تمام چینلوں سے پیش کی گئی اور اس پر متواتر مباحثے ہوتے رہے۔
رام کی مورت میں رُوح پُھونکنے کی تقریب (پران پرتشٹھا) میں شرکت کرنے والوں میں امیتابھ بچن جیسے فلم انڈسٹری کے مشاہیر کے ساتھ ساتھ مکیش امبانی جیسے ارب پتی تاجر بھی شامل تھے۔
 اس حوالے سے اردو نیوز سے دہلی کی امبیڈکر یونیورسٹی کے پروفیسر اور صحافی ابھے کمار دُوبے نے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو یہ معلوم تھا کہ اس ’پران پرتشٹھا‘ کی تقریب پوری طرح سے سیاسی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا الائنس میں شامل کمیونسٹوں (بائیں بازو کی جماعتیں) اور دڑاوڈ کی پارٹیوں (جنوبی انڈیا کی پارٹیوں) کے علاوہ کانگریس سمیت تمام اہم پارٹیوں نے تساہل سے کام لیا اور اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کی۔
’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس پارٹی کی قطاروں میں بھی ابہام پھیل گیا اور اس کے بڑے رہنماؤں نے تو شرکت نہیں کی لیکن دوسری قطار کے رہنما اس تقریب میں شریک نظر آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے پوری طرح سے حکمراں جماعت بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور رام مندر کے افتتاح سے جو ماحول بنا ہے اس کا وہ عام انتخابات کے لیے تقریباً 100 دنوں کے دوران فائدہ اٹھائے گی۔‘

 ’بی جے پی 100 روز میں تین کروڑ افراد کو مندر کا درشن کرائے گی جن میں سے بیشتر ان کا ووٹ بینک ثابت ہوں گے ‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ابھے کمار دُوبے کا کہنا ہے کہ ’افتتاح کے دوسرے ہی دن بی جے پی نے تین لاکھ افراد کو رام مندر کے درشن کرائے۔ اس حساب سے 100 دنوں کے اندر وہ تین کروڑ افراد کو درشن کرانے میں کامیاب ہوگی اور اِن میں سے بیشتر ان کا ووٹ بینک ثابت ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا میں سکول کالجوں اور ہسپتالوں سے زیادہ مذہبی مقامات ہیں۔ اور یہ بات کئی مطالعے سے ثابت ہے کہ انڈیا میں زیادہ مندر جانے والے افراد بی جے پی کے ووٹرز ہیں جبکہ نہ جانے والوں میں بھی کم ہی سہی ان کے ووٹرز ہیں۔‘
جب ہم نے ان سے یہ دریافت کیا کہ حکومت کی مذہبی تقریب میں اس پیمانے پر شرکت سے کیا انڈیا کے سیکولر کردار کو زِک پہنچی ہے تو انہوں نے برجِستہ دریافت کیا کہ ’انڈیا میں سیکولر کون ہے؟ کوئی بھی سیکولر نہیں ہے۔‘
’آپ دیکھیں کہ ایودھیا میں نہ جا کر بھی حزب اختلاف کے رہنما کسی نہ کسی مندر میں درشن کے لیے پہنچے ہوئے تھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ بھی ہندو ہیں۔‘
اپوزیشن کا سب سے نمایاں چہرہ اور کانگریس رہنما راہل گاندھی منی پور ممبئی تک کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ پر ہیں۔

 راہل گاندھی سمیت اپوزیشن رہنما ایودھیا میں نہ جا کر بھی کسی نہ کسی مندر میں درشن کے لیے پہنچے ہوئے تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پیر کو وہ شمال مشرقی ریاست آسام میں تھے جہاں انہیں ایک مندر میں درشن کے لیے داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا تو انہوں نے وہاں سڑک پر بیٹھ کر کہا تھا کہ ’کیا آج کے دن صرف مودی جی کو ہی مندر میں جانے کا حق حاصل ہے؟‘
دوسری جانب مغربی بنگال کی وزیراعلٰی اور ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی کل مذاہب خیرسگالی مارچ کر رہی تھیں اور اُن کی پارٹی کے ارکان بھی ریاست بھر میں ایسے ہی مارچ نکال رہے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا تھا کہ پہلے وہ کالی مندر جائیں گی اور اس کے بعد سدبھاونا یاترا میں شرکت کریں گی۔‘
دہلی کے وزیراعلٰی اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروِند کیجری وال بھی ایودھیا نہ پہنچے تھے لیکن وہ دہلی کے ایک مندر میں درشن دینے گئے تھے جبکہ بہار کے وزیراعلٰی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے سربراہ نتیش کمار نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور یہی حال راشٹریہ جنتا دل کے رہنما اور بہار کے نائب وزیراعلٰی تیجسوی یادو کا تھا۔
مغربی ریاست مہاراشٹر کی پارٹی شیو سینا کے ایک دھڑے کے رہنما ادھو ٹھاکرے بھی ریاست میں مندروں میں درشن کرتے نظر آئے۔
اُتر پردیش کے سابق وزیراعلٰی اکھلیش یادو نے اپنی ایک ٹویٹ میں واضح کیا کہ وہ بعد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایودھیا ’بھگوان رام کے درشن کو جائیں گے۔‘

سیاسی مبصرین کے مطابق ’ہندوؤں میں کوئی اپنی ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو کوئی اپنے عقیدے کی بنیاد پر‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ابھے کمار دُوبے نے انڈین سیاست پر اسی حوالے سے مزید کہا کہ ’انڈیا کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی سیاست میں مذہب کا عمل دخل شروع سے رہا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں سیاست اور مذہب میں کوئی فرق ہے۔ ہندوؤں میں کوئی اپنی ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو کوئی اپنے عقیدے کی بنیاد پر۔ اس لیے سیکولر کردار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
دریں اثنا سوشل میڈیا پر جہاں اکثریت رام مندر کے حوالے سے تبصرہ کر رہی اور تصاویر اور ویڈیوز ڈال رہی ہے وہیں کچھ لوگ انڈیا کے آئین کی تمہید کی تصاویر پوسٹ کر رہے تھے جس میں اس کے سیکولر اور سوشلسٹ کردار کی نشاندہی کی گئی تھی۔
سیاسی مبصر ابھے کمار نے کہا کہ ’حزب اختلاف کے رہنما پارک میں چہل قدمی کرنے والے بوڑھوں کی طرح ہیں جو جگہ جگہ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ بی جے پی والے لمبی دوڑ کے ایتھلیٹ ہیں جو مستقل طور پر دوڑتے نظر آتے ہیں اور اس کا اثر ہونا لازمی ہے۔‘

شیئر: