Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سخت سردی میں پشاور کا چڑھتا سیاسی پارہ، کانٹے کے مقابلے متوقع

2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے پشاور میں کلین سویپ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پشاور کے 13 صوبائی اور پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی ہیں اور اس سخت سردی میں ’سیاسی درجہ حرارت‘ بھی بڑھنے لگا ہے۔
صوبائی اور قومی اسمبلی کے مجموعی طور پر ان 18 حلقوں کے لیے 345 امیدواروں میں مقابلہ ہو گا جن میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 91 جبکہ صوبائی نشستوں کے لیے 254 امیدوار میدان میں ہیں۔
پشاور کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر 49 جبکہ صوبائی حلقوں کے لیے 163 آزاد امیدوار بھی انتخابی دنگل میں قسمت آزمائی کریں گے۔ 
پشاور کے صوبائی حلقے 
پشاور میں صوبائی اسمبلی کی 13 نشستیں ہیں۔ پی کے 72 اور پی کے 73 سے 16، پی کے 74 پر 13، پی کے 75 کے لیے 16، پی کے 76 سے 14، پی کے 77 پر 13، پی کے 78 کے لیے 20، پی کے 79 سے 27، پی کے 80  سے 17، پی کے 81 کے لیے 31، پی کے 82 سے 24، پی کے 83 سے 22 اور حلقہ پی کے 84 کے لیے 19 امیدوار الیکشن لڑیں گے۔
قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں حلقہ این اے 28 کے لیے 15، این اے 29 پر 13، این اے 30 کے لیے 15، این اے 31 سے 21 جبکہ این اے 32 سے 24 امیدواروں میں مقابلہ ہو گا۔
کس حلقے میں کانٹے کا متوقع ہے؟
پشاور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 32 پر سیاسی گہماگہمی زیادہ ہے اور تاریخی اہمیت ہونے کی وجہ سے سب کی نظریں اس حلقے پرمرکوز ہیں۔
 یہ حلقہ پہلے این اے 31 اور اس سے پہلے این اے ون ہوا کرتا تھا، اس حلقے سے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق وزیر اعظم عمران خان بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔
عام انتخابات 2024 کے امیدواروں میں عوامی نیشنل پارٹی سے غلام احمد بلور، پیپلزپارٹی سے عابداللہ، پی ٹی آئی کے نامزد کردہ آصف خان، جے یوآئی سے حسین احمد مدنی، مسلم لیگ سے شیر رحمان اور دیگر آزاد امیدوار کھڑے ہیں مگر مقابلہ بزرگ سیاستدان غلام احمد بلور اور پی ٹی آئی کے امیدوار میں ہونے کا زیادہ امکان ہے۔  
قومی اسمبلی کے اسی حلقے کی صوبائی نشست پی کے 83 شہری علاقوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس حلقے میں انتخابی رونق زیادہ ہے۔ اس حلقے سے پی ٹی آئی کی مینہ خان، اے این پی کی ثمرہارون بلور اور پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر ظاہر علی شاہ میں مقابلہ ہو گا۔

تحریک انصاف کے رہنما طویل عرصے تک روپوشی میں رہنے کے بعد انتخابی مہم کے لیے منظر عام پر آچکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے سنہ 2018 کے ضمنی الیکشن میں ثمر ہارون بلور یہ نشست جیت گئی تھیں۔ 
کیا پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا اس بار کامیابی حاصل کر پائیں گے؟ 
خیبرپختونخوا کے سابق وزیر کامران بنگش پی کے 82، تیمور سلیم جھگڑا  79 اور سابق ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی محمود جان پی کے 72 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما طویل عرصے تک روپوشی میں رہنے کے بعد انتخابی مہم کے لیے منظرعام پر آ چکے ہیں۔ یہ حلقے 2013 کے انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کا ہوم گراونڈ سمجھے جاتے ہیں مگر عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہمدردی کے ووٹ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس لیے ان امیدواروں کو عوام کی جانب سے زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پشاور کی بیشتر نشستوں پر پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار برتری حاصل کرلیں گے۔ 
 پشاور کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 30 سے پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار شاندانہ گلزار بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے ناصر خان موسی زئی سے متوقع ہے۔ 
واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے پشاور میں کلین سویپ کرتے ہوئے ایوان تک رسائی حاصل کی تھی۔
 

شیئر: