Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ میں پیپلز پارٹی کو شکست دے پائے گا؟

سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف تمام ہی قوتیں اس الیکشن میں ایک پیج پر نظر آ رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ان دنوں سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیرِ گردش ہے کہ کیا سندھ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حکومت کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والا اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 2024 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دے سکے گا؟
اس سوال کا جواب جلد مل جائے گا مگر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہ اتحاد ماضی کی نسبت مضبوط ہوا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی قریبی ساتھی ناہید خان اور صفدر عباسی سمیت پیر پگارا اور قوم پرست جماعتوں نے سال 2017 میں پی پی مخالف ایک اتحاد بنایا جسے جی ڈی اے کا نام دیا گیا۔
اس اتحاد میں سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بھی شامل ہوئے اور کچھ ہی عرصے میں یہ اتحاد سندھ میں پی پی مخالف مضبوط گروپ تصور کیا جانے لگا۔  

جی ڈی اے میں کون کون سی جماعتیں شامل ہیں؟ 

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں سندھ پارٹی یونائیٹڈ، قومی عوامی تحریک، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، سندھ نیشنل فرنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز، پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو، نیشنل پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بھی جی ڈی اے کی اتحادی رہی ہیں۔
سال 2018 کے عام انتخابات اور 2019 کے ضمنی انتخاب میں جی ڈی اے کی بڑی کامیابی پیپلز پارٹی کو اس کے گڑھ لاڑکانہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 11 سے شکست دینا تھی۔ اس حلقے سے جی ڈی اے کے امیدوار معظم علی خان نے پیپلز پارٹی کے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو کو شکست دی تھی۔ انہوں نے 31 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔  
عام انتخابات کے قریب آتے ہی سندھ میں سیاسی گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے، ماضی میں صوبے میں حکومت کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی اپنے صوبے میں کیے گئے نمایاں کاموں کو اجاگر کر رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں حکومت کی کارکردگی پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیں۔ 
سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف تمام ہی قوتیں اس الیکشن میں ایک پیج پر نظر آ رہی ہیں۔ 
سندھ کے شہری علاقوں میں نمائندگی رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ جی ڈی اے کا حصہ تو نہیں ہے لیکن ایم کیوایم نے 2024 کے عام انتخابات میں جی ڈی اے کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے۔
کراچی کے حلقہ پی ایس 105 پر ایم کیو ایم  جی ڈی اے کے امیدوار عرفان اللہ مروت کی حمایت کرے گی جبکہ این اے  237  کی  سیٹ پر  جی ڈی اے  ایم کیوایم کے امیدوار عبدالرئوف صدیقی کو سپورٹ کرے گی۔  

لاڑکانہ میں بھی جی ڈی اے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مضبوط حریف ثابت ہو گی (فوٹو: مسلم لیگ فنکشنل)

سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ ساتھ سندھ کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی جی ڈی اے کی پوزیشن پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو رہی ہے۔ 
سندھ کے علاقے بدین سے سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے کاغذات منظور ہونے کے بعد دونوں رہنما اب انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ضلع بدین اور اس کے نواحی علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ذوالفقار مرزا کا گروپ مضبوط پوزیشن میں ہے۔ 

سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف گروپ کن علاقوں  میں  مضبوط پوزیشن میں موجود ہیں؟ 

بدین، سجاول، گولارچی اور تھرپارکر کے علاقوں میں جی ڈی اے کے امیدوار پرعزم ہیں کہ وہ اس بار ان علاقوں سے سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک خطرہ موجود ہے۔  
کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں پی پی کو ایم کیو ایم کا سامنا ہے۔ بدین، جھڈو، ڈگری، کنری، عمر کوٹ، کھپرو، چھاچھرو، ننگر پارکر، چھور، مٹھی، سانگھڑ، جھول اور پیر جو گوٹھ سمیت دیگر علاقوں میں جی ڈی اے پیپلز پارٹی کے خلاف سیٹیں جیتنے کے لیے پرعزم ہے۔  
لاڑکانہ میں بھی جی ڈی اے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مضبوط حریف ثابت ہو گی۔ اس علاقے میں جمعیت علمائے اسلام ف بھی ایک قوت کے طور پر موجود ہے۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی علاقہ ہے۔ اس علاقے سے صوبائی اسمبلی میں پچھلے دو انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  

سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’سندھ میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں گھوٹکی، ڈہرکی، صادق آباد سمیت دیگر علاقوں میں بھی پیر پگارا کی فنکشنل لیگ کی صورت میں جی ڈی اے کے پاس اچھی نمائندگی موجود ہے۔ ان علاقوں میں جہاں پیر پگارا سمیت دیگر مذہبی شخصیات کے مرید موجود ہیں وہیں سرداری نظام ہونے کی وجہ سے مختلف قبائل کے افراد بھی الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
2024 کے انتخابات میں اس علاقے سے آزاد حیثیت میں حصہ لینے والے امیدوار اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کے محفوط ترین علاقوں میں شمار کیا  جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’سندھ میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے میں پی پی مـخالف تمام جماعتیں یکجا ہو کر پیپلز پارٹی کے سامنے آئی ہیں۔ تاہم ہم پرامید ہیں کہ اس بار انتخابات میں سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کو ہی کامیاب کریں گے۔‘  

شیئر: