آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’امید ہے کہ یہ سزا معطل ہو جائے گی کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس سے پہلے بھی مرتبہ اس کیس کی پروسیڈنگ کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔‘
عدالت نے میڈیا اور عوام کو عدالت تک رسائی کا حکم دیا تھا جبکہ اس عدالت نے تو قانونی ٹیم اور وکلا کو بھی عدالت نہیں پہنچنے دیا اور جلدی میں سزا سنا دی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے پارٹی ورکرز کو احتجاج سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ ساری توجہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات پر مرکوز رکھیں اور بڑی تعداد میں باہر نکل کر ووٹ ڈالیں تاکہ ٹرن آوٹ زیادہ سے زیادہ ہو۔
سائفر کیس کیا ہے؟
27 مارچ 2022 کو جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں کچھ روز باقی رہ گئے تھے تو انھوں نے پریڈ گراونڈ اسلام آباد میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کاغذ لہرایا اور کہا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے کہ اگر عمران خان حکومت رہے گی تو پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘
خطاب کرتے ہوئے وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ انھیں ملکی مفاد عزیز ہے اور اگر پاکستان کے تعلقات کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ اس ملک کا نام بھی لے لیتے، اور ایک موقع پر ان کے منہ سے امریکہ کا نام منہ سے نکل گیا اور بعد ازاں انھوں نے سر جھٹک دیا۔
عمران خان کے اس انکشاف نے ملکی سیاست میں بھونچال برپا کیا۔ اگلے ہی دن قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا اور امریکہ کو اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈی مارش کرنے کا فیصلہ ہوا۔
مزید پڑھیں
-
سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائدNode ID: 805841
-
سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدNode ID: 832111
وقت گزرا، عمران خان حکومت کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے اور عدالت کی جانب سے بحالی کے بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم کی نئی حکومت بن گئی۔
سائفر پر ایک بار پھر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جسے سازش نہیں مداخلت قرار دے کر ڈی مارش کرنے کے پہلے فیصلے کی توثیق کی گئی۔
عمران خان نے جلسوں میں اس مراسلے کی بنیاد پر اپنا بیانیہ بنانا شروع کیا۔ اپنے ایک خطاب میں جب عمران خان نے شہباز شریف کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق ایک بیان کو بنیاد بنا کر کہا کہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
ستمبر کے آخری ہفتے میں مبینہ آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تو سائفر سے متعلق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور پھر شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو اور منصوبہ بندی کو بنیاد بنا کر موجودہ حکومت نے ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا۔
بعد ازاں کاسیفائیڈ دستاویز کو عوام کے سامنے رکھنے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے معاملے پر کابینہ نے تحقیقات کا فیصلہ کیا اور یوں پی ڈی ایم حکومت نے سائفر کیس بنا کر قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کا قانون ہے جو بنیادی طور پر جاسوسی روکنے کے لیے ہے، اس کے تحت کسی بھی ایسے راز کو جو کسی ایسے فرد جس کے پاس قانونی اختیار نہیں ہے، کے علم میں لانے والے کو 14 سال تک قید یا اس سے زائد کی سزا دی جا سکتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کے تحت سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
جب بھی وزیراعظم یا وفاقی وزرا کی حلف برداری کی تقریب ہوتی ہے ان کے حلف میں باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ چیز بھی شامل کی جاتی ہے کہ بحثیت وزیراعظم یا وفاقی وزیر جو بات بھی ان کے علم میں لائی جائے گی وہ ملکی مفاد میں کسی دوسرے کے علم میں نہیں لائیں گے۔

کابینہ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگست 2023 میں خصوصی عدالت تشکیل دے دی۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو اس عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔
تحریک انصاف نے پہلے اس عدالت کی تشکیل کو چیلنج کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس میں قانونی نقائص کی نشان دہی کی جسے نگراں حکومت نے دور کرکے نئے سرے سے کابینہ سے منظوری حاصل کر لی۔
بعد ازاں جب عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں سزا سنا دی گئی تو اس کیس کا جیل ٹرائل کرنے کی منظوری دی گئی۔
تحریک انصاف نے اس کے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کے خلاف فیصلہ دیا بعد ازاں حکومت کی جانب سے جیل ٹرائل میں صحافیوں اور عوام کو جیل میں موجود ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
دو مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل میں ہونے والے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دے کر نئے سرے ٹرائل کرنے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمات مسترد کر دی تھی تاہم سپریم کورٹ نے دونوں کی ضمانت منظور کی تھی۔ دونوں کو دیگر مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا تھا اس وجہ سے سائفر کیس کا جیل ٹرائل جاری رہا۔؎
عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کی جانب سے پیش نہ ہونے کے بعد سرکاری وکلا صفائی کا تقرر کرکے ایک ہی دن میں 25 گواہان پر جرح مکمل کی، اور اگلے ہی دن کچھ دیر کی سماعت کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس دس سال کی سزا سنا دی
