سائفر کا مبینہ متن منظر عام پر: عمران خان کے لیے مشکلات بڑھیں گی؟
سائفر کا مبینہ متن منظر عام پر: عمران خان کے لیے مشکلات بڑھیں گی؟
جمعرات 10 اگست 2023 10:06
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکی اہلکار کی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی اخبار دی انٹر سیپٹ میں سائفر کے مبینہ مندرجات سامنے آنے کے بعد پاکستان کی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ایک بار پھر یہ خفیہ دستاویز زیرِ بحث ہے۔
اس خبر کے شائع ہوتے ہی عمران خان کے حامی اس دستاویز کو ان کے بیانیے کی حقانیت سے جوڑ رہے ہیں جبکہ مخالفین اس کو سرکاری دستاویز کے افشا ہونے پر عمران خان کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ’حالانکہ اس خبر میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی اس دستاویز کے درست ہونے کی یا اصل سائفر کے مندرجات سے ہم آہنگی دیکھی جائے۔ بظاہر یہ ایک شیطانی اور غدارانہ عمل ہے۔‘
اپنے ٹویٹ کے دوسرے حصے میں انہوں نے لکھا ’یہ کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے کہ سائفر کی ایک کاپی عمران خان نیازی کے پاس تھی جو انہوں نے واپس نہیں کی اور آن دی ریکارڈ کہا کہ وہ کہیں گم ہو گئی ہے۔ اگر یہ جرم ثابت ہو جائے تو عمران خان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اسلام آباد میں اپنے پہلے جلسے کے دوران انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا اور اپنے کارکنوں کو بتایا کہ اس خط میں وہ سازش ہے جو ان کی حکومت گرانے کے لیے رچائی گئی۔
حکومت کے ایما پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اس بات کی چھان بین پہلے ہی کر رہا ہے کہ جو سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس بھیجی گئی تھی وہ کہاں ہے۔ اس حوالے سے عمران خان ایک مرتبہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے روبر و پیش بھی ہو چکے ہیں۔
اس پیشی کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد والے جلسے میں جو کاغذ انہوں نے لہرایا تھا حقیقت میں وہ سائفر تھا ہی نہیں۔
Though there is nothing new in this story, the investigation needs to held to establish the authenticity of the information or source document. Potentially, it is a very sinister, treacherous, and seditious act.
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی اخبار میں سائفر کے مندرجات نقل ہونے کے بعد صورت حال میں تیزی آ گئی ہے۔ تو ایسے میں قانونی سوال یہ ہے کیا اس مرتبہ عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر سکتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آئینی امور کے ماہر وکیل اور لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق سیکریٹری رانا اسداللہ خان کہتے ہیں کہ یہ صرف اس بات پر منحصر ہے کہ موجود خبر کی اشاعت کا تعلق عمران خان سے ثابت ہو تو پھر ان کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔
’ابھی تو پہلے بھی سائفر کی گمشدگی کا مقدمہ درج ہے اور تحقیقات بھی جاری ہیں۔ پہلے تو ریاست کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ دستاویز کیسے اور کہاں سے نکلی ہاں اگر یہ تعلق ثابت ہو جاتا ہے تو پھر یقینی طور پر ایک سنجیدہ صورت حال ہو گی۔‘
بیرسٹر احمد پنجوتا کا البتہ کہنا ہے کہ اس سائفر سے متعلق کئی صحافی بھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ اس کی ایک کاپی ان کے پاس بھی تھی
’یہ معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہو گا۔ اس لیے اس بات کی تحقیقات کی بہر حال ضرورت ہے اس سے ہی صورت حال واضح ہو گی۔ پہلے بھی ایف آئی اے نے جو سائفر کی گمشدگی کا مقدمہ درج کر رکھا ہے اس میں آفیشیل سیکرٹ ایکٹ ہی لگایا ہے اگر یہ وہی سائفر ہے کی گمشدگی کی تحقیقات ہو رہی ہیں تو پھر نئے مقدمے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہو گا۔‘
مبینہ سائفر کے متن کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا، امریکی محکمہ خارجہ
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کی پاکستانی قیادت سے متعلق اندرونی فیصلوں میں مداخلت کے حوالے سے الزامات غلط ہیں۔
محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران سائفر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ یہ حکومتِ پاکستان کی دستاویز ہے اور وہ اس کی حقیقت سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے کہا ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اصل میں یہ پاکستانی دستاویز ہے یا نہیں۔ مجھے بالکل نہیں معلوم۔‘
ترجمان نے امریکی اور پاکستانی اہلکاروں کے درمیان رپورٹ ہونے والی بات چیت سے متعلق کہا کہ وہ نجی سفارتی تبادلوں پر بات نہیں کریں گے اور ’اگر ان تبصروں میں کوئی حقیقت ہے بھی تو ان سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکہ نے اس حوالے سے کوئی پوزیشن لی کہ پاکستان کا لیڈر کون ہونا چاہیے۔‘
’ہم حکومت پاکستان سے نجی طور پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور عوامی سطح پر بھی کرتے ہیں۔ ہم نے سابق وزیراعظم عمران خان کے یوکرین پر حملے والے دن دورہ روس کے حوالے سے اپنی تشویش واضح کی تھی۔‘
’لیکن جیسا کہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر خود کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پر پاکستانی قیادت کے حوالے سے اندرونی فیصلوں میں مداخلت کے الزامات غلط ہیں، اور ہم بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ غلط ہیں۔ یہ ہمیشہ سے غلط ہیں اور غلط رہیں گے۔‘
ترجمان سے سوال کیا گیا کہ کیا دورہ ماسکو کے نتیجے میں عمران خان کو تنہا کرنے کے حوالے سے تبصروں میں کوئی حقیقت ہے، اس پر میتھیو ملر کا کہنا تھا ’اس میں جائے بغیر کہ ان میں کوئی سچائی ہے یا نہیں اگر رپورٹ ہونے والی تمام بات چیت کو تناظر میں دیکھا جائے تو میرے خیال میں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی حکومت نے پالیسی سے متعلق وزیراعظم کی ترجیحات پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ امریکہ اس حوالے سے اپنی ترجیحات بتا رہا ہے کہ پاکستان کی قیادت کس کو کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان تبصروں کو کس طرح سے سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جا سکتا ہے اور کس طرح سے لوگوں کی بھی خواہش ہو گی کہ انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا جائے اور اپنے ایجنڈا کے فروغ کے لیے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے، (وہ ایجنڈا) جس کی عکاسی ان تبصروں میں بالکل نہیں ہوتی۔‘