حالیہ انتخابات میں انہیں ضلع لودھراں کے صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی پی 226 سے پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے ٹکٹ دیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے موٹر سائیکل پر پاپڑ اور ٹافیاں رکھنے کے بعد اُن پر کئی پوسٹرز بھی آویزاں کر دیتے ہیں جن پر اُن کی تصویر اور انتخابی نشان درج ہیں۔
وہ علاقے میں پاپڑ سپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ جب وہ سڑک پر پاپڑ لاد کر موٹر سائیکل چلاتے ہیں تو ساتھ ہی با آواز بلند اردگرد کے لوگوں کو ووٹ دینے کی اپیل بھی کرتے ہیں۔ آتے جاتے وہ لوگوں کو ہاتھ لہرا کر یوں سلام کرتے ہیں جیسے وہ کسی سیاسی جلسے میں تقریر کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے موٹر سائیکل پر پاپڑ بیچ سپلائی کر رہے ہوتے ہیں۔
آصف شہزاد اقبال ایک مزدور ہیں۔ وہ اس کے علاوہ بھی کام کاج بھی کرتے ہیں۔ اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اُن کے لیے انتخابات میں حصہ لینا ایک ’دلچسپ سرگرمی‘ ہے۔ ان کے مطابق انہیں پارٹی ٹکٹ اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ 13 سال محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے علاقے کے مسائل سے آگاہ ہیں۔
’میں خود مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ میں نے دھوپ اور بھوک دیکھی ہے۔ پارٹی نے مجھے اسی بنیاد پر ٹکٹ دیا ہے کہ میں اپنی مزدوری لگن کے ساتھ کرتا ہوں اور حلال کماتا ہوں۔ مجھے جب ٹکٹ ملا تو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ آج بھی ہمارے سننے والے اور ہمیں کھڑا کرنے والے لوگ موجود ہیں۔‘
ان کے مطابق وہ گرمی کی شدت اور سخت سردی میں بھی اپنی محنت جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ’میں کئی برسوں سے پاپڑ بیچنے کا کام کر رہا ہوں۔ یہاں کے لوگ مجھے بخوبی جانتے ہیں۔ میں نے اونچی عمارتیں نہیں بنانی بلکہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے۔ مجھے اپنے لوگوں کی محرومیوں کا بخوبی اندازہ ہے۔‘
انہوں نے روایتی سیاست دانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہی لوگوں میں رہ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں، ان سے دور جانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے سیاست میں آنے کے فیصلے پر بتایا ’یہاں سیاست دان پانچ سال غائب رہتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں یہ سارے نمودار ہو جاتے ہیں جبکہ میں اپنے لوگوں میں موجود رہتا ہوں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ میں خود سیاست میں قدم رکھوں تاکہ اپنے لوگوں کے مسائل کا ازالہ کر سکوں۔‘
انہوں نے اپنے علاقے کے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا حلقہ محرومیوں کا شکار ہے۔ ’ہمارے ہاں بجلی ہے اور نہ گیس۔ اگر ہے بھی تو وہ ہماری ضروریات پوری نہیں کرتا۔ یہاں کی سڑکیں ایسی ہیں کہ کوئی گاڑی ان پر چلنے کے قابل نہیں۔‘
’غریب ہی غریب کی تڑپ کو محسوس کر سکتا ہے‘
وہ اپنے علاقے کے ایک چوک کا ذکر کرتے ہوئے بے روزگاری سے متعلق بتاتے ہیں کہ اس چوک پر صبح سے مزدور لوگ آ کر جمع ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کام نہیں ملتا۔ ان کے مطابق ’صبح ہمارے لوگ بغیر ناشتے کیے آ جاتے ہیں تاکہ انہیں کوئی کام ملے۔ یہ لوگ دوپہر تک یہاں کھڑے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ایک مزدور ڈھونڈنے آتا ہے تو 25 لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں اتنے ووٹرز ہونے کے باوجود سو مزدور اپنی روزی نہیں کما سکتے۔‘
ان کے بقول مزدوری کے لیے ڈیل کرتے وقت لوگ پہلے روٹی اور پھر مزدوری کا پوچھتے ہیں۔ ’جب ہم مزدوری کے لیے ڈیل کرتے ہیں تو ہم سب سے پہلے پوچھتے ہیں کہ اگر کھانا دیں گے تو پیسے کم لیں گے ورنہ مزدوری زیادہ ہے جبکہ وہ مزدوری بھی 800 روپے سے زیادہ نہیں ہوتی جس میں کسی ایک شخص کا بھی گزارا مشکل سے ہوتا ہے۔‘
یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست میں آئے کیونکہ ان کے بقول ’ایک غریب ہی غریب کی تڑپ اور درد کو محسوس کر سکتا ہے۔ کوئی امیر شخص ہمارے درد کو نہیں سمجھ سکتا۔ ’اس حلقے میں آنے والے سیاست دان عام طور پر لکژری گاڑیوں میں ووٹ مانگنے آتے ہیں۔‘
آصف شہزاد کے مطابق ایسی گاڑیاں ان کے حلقے میں کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ’ان گاڑیوں سے بھی ہمارے لوگ اوجھل ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ ہمارے ووٹس سے آگے گئے، اب ان کے پاس ایسی گاڑیاں آ گئی ہیں اور ہم اسی طرح رہ گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق لوگ اس کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ ’میں موٹر سائیکل پر انتخابی مہم چلاتا ہوں تو یہاں کے لوگوں کو اپنا معلوم ہوتا ہوں۔ ان کو میری حالت دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ یہ ہمارے لیے کچھ کر سکتا ہے۔‘
آصف شہزاد چوہان نے اپنے سینے پر اپنا ہی سٹیکر لگایا ہوتا ہے اور ہر دکان میں جا کر پہلے پاپڑ فروخت کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے لیے ووٹ کی مانگ رکھتے ہیں۔ جب وہ موٹر سائیکل پر جا رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظر قریب بیٹھے لوگوں پر پڑتی ہے تو یہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ انہیں مختصر تقریر کر کے بتاتے ہیں کہ وہ انہی میں سے نکلے ہیں اور ان کے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
ان کے بقول ’میرے پاس کوئی ٹیم نہیں ہے جو میرے لیے انتخابی مہم چلائے لیکن مجھ میں ہمت ہے اور میں اپنا حق مانگنے نکلا ہوں۔‘
جب ان کو موٹر سائیکل پر پوسٹرز لیے لوگ دیکھتے ہیں تو پہلے حیران ہوجاتے ہیں پھر ان سے وجہ دریافت کرتے ہیں۔ آصف شہزاد انہیں اپنی انتخابی مہم کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے بقول لوگوں کی طرف سے انہیں بہت سپورٹ کیا جا رہا ہے۔
’مجھے میرے انتخابی مہم کے دوران وہ لوگ بھی ملے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا لیکن اب وہ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ ہر حال میں مجھے ووٹ دیں گے کیونکہ وہ مجھ میں خود کو تلاش کرتے ہیں۔‘