Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بشریٰ بی بی، پاکپتن سے اڈیالہ جیل میں گرفتاری دینے تک

بشریٰ بیگم پر بڑا ہے کہ وہ اپنی دست راست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب حکومت چلا رہی تھیں۔ (فوٹو: بشکریہ ہم نیوز)
بشریٰ بیگم کا نام قندیل بلوچ کی زبانی جب پہلی بار کسی میڈیا پر آیا تھا تب تک ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا اور شاید کسی نے ان کی بات کو سنجیدہ بھی نہیں لیا تھا۔
قندیل بلوچ کے قتل کے بعد جب یکم جنوری 2018 کو صحافی عمر چیمہ نے عمران خان اور بشریٰ بیگم کے نکاح کی خبر دی تو پہلے تو تحریک انصاف نے تردید کی لیکن کچھ ہی دنوں بعد تصدیق بھی کر دی اور باقاعدہ ولیمہ بھی ہوا۔
بشریٰ بیگم پاکپتن کے مانیکا خاندان کے خاور مانیکا کی اہلیہ اور ایک روحانی شخصیت تھیں کہ کسی ذریعے سے عمران خان اور ان کا رابطہ ہوا۔ عمران خان نے ان کو اپنا مرشد بنا لیا اور اکثر ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔
نکاح کے بعد بشریٰ بیگم آئیں تو عمران خان کی زندگی بدل گئی۔ وہ مذہب میں زیادہ دلچسپی لینے لگے اور ان کی گفتگو میں بھی مذہبی ٹچ نمایاں ہوگیا۔
تاہم یہ تنازعات بھی جنم لینے لگے کہ اس شادی سے قبل جو لوگ عمران خان کے قریب تھے وہ دور ہونے لگے بلکہ کچھ تو ایسے بھی تو جو نہ صرف عمران خان اور بشریٰ بیگم کے تعلق اور پھر نکاح کے چشم دید گواہ تھے ان کو بھی عمران خان سے دور ہونا پڑا یا انھیں دور کر دیا گیا۔ ان میں جہانگیر ترین، عون چوہدری اور علیم خان بڑی مثالیں ہیں۔
ابتدا میں یہ سب باتیں بھی افسانہ ہی معلوم ہوتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان رہنماؤں کے اخباری اور عدت میں نکاح کیس میں مانیکا فیملی سمیت دیگر کے بیانات نے ان باتوں کی تصدیق کی۔
بشریٰ بیگم پر عمران خان کے مخالفین الزامات بھی عائد کرتے تھے جن میں سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اپنی دست راست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب حکومت چلا رہی ہیں اور کرپشن میں ملوث ہیں۔

توشہ خانہ کیس جب عدالتوں میں شروع ہوا تو پردہ نشین بشریٰ بیگم اپنے مخصوص انداز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے یہ الزام بھی موجود ہے کہ عثمان بزدار کو لگوانے اور پارٹی اور مقتدر حلقوں میں مخالفت کے باوجود ان کو نہ ہٹانے کے پیچھے بشریٰ بیگم کا ہاتھ تھا۔
اس تنقید پر عمران خان کو شدید غصہ اور تکلیف بھی ہوتی اور اپنے خطابات میں وہ اس کا اظہار انتہائی کرب کے ساتھ کرتے کہ ان کی گھریلو اور باپردہ بیوی کو سیاست میں ملوث کیا جاتا ہے اور انھیں بدنام کیا جا رہا ہے۔
توشہ خانہ کیس کی تفصیلات سامنے آنے لگیں تو بشریٰ بیگم کا کردار بھی اس میں موجود تھا لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے اس کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔
بعد ازاں بشریٰ بیگم اور ذولفی بخاری کی آڈیو لیک میں ان الزامات کی جھلک دکھائی دی۔
ملک ریاض کی بیٹی اور فرح گوگی کی آڈیو لیک میں بھی بشریٰ بیگم اور ہیرے کی انگوٹھی کا ذکر موجود تھا۔ بشریٰ بیگم پر القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض سے فائدہ لینے کا بھی الزام ہے جس کے بدلے میں انھیں 190 ملین پاونڈز کی واپسی میں مبینہ سہولت کاری ہوئی۔
توشہ خانہ کیس جب عدالتوں میں شروع ہوا تو پردہ نشین بشریٰ بیگم اپنے مخصوص انداز میں عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ یہ بھی تاثر ملتا رہا کہ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح عمران خان کے خلاف جا سکتی ہیں لیکن انھوں نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا اور عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔
اگرچہ بشریٰ بیگم ایک گھریلو خاتون ہیں لیکن بدھ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے 14 سال سزا سنانے کے وقت وہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔ اس طرح کے فیصلوں کے بعد امکان یہی ہوتا ہے کہ متعلقہ حکام مجرم کو پکڑنے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں یا چھپے ہونے کی صورت میں اسے تلاش کرتے ہیں لیکن بشریٰ بیگم نے ایک انتہائی سیاسی قدم اٹھاتے ہوئے حکام کی جانب سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ گرفتاری دینے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچ گئیں۔ جس نے سیاسی و صحافتی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

شیئر: