Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈائری:عمران خان کو قید کی سزا اور بشریٰ بیگم کی ثابت قدمی

عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بیگم ایک گھریلو اور باپردہ خاتون ہیں اور سیاسی امور سے بظاہر دور ہی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود گذشتہ کچھ برسوں میں جہاں عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید کی زد میں تھے وہیں بشریٰ بیگم پر بھی طرح طرح کے الزامات لگ رہے تھے۔
9  مئی کے بعد جب عمران خان کی جماعت کے رہنماؤں نے پریس کانفرنسوں کے ذریعے ان سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کرنا شروع کیا تو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم بھی توشہ خانہ یا القادر ٹرسٹ کیس میں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتی ہیں۔
وہ اس صورت حال میں مسلسل خاموشی اختیار کیے عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں اور کبھی کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
دو روز قبل جب توشہ خانہ کیس میں گواہوں پر جرح جاری تھی اس وقت یہ محسوس ہونے لگا کہ آج ہی فیصلہ ہوسکتا ہے اور بشریٰ بیگم بھی گرفتار ہو سکتی ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ بشریٰ بیگم جو عموماً لوگوں کی موجودگی میں عمران خان سے بھی گفتگو نہیں کرتیں اس وقت بول پڑیں۔ انھوں نے کہا کہ ’خان صاحب لوگ کہتے تھے کہ میں آپ کے خلاف ہو جاؤں گی یا آپ کے خلاف گواہی دوں گی۔ آج میں یہاں گرفتاری دے کر ان سب کو غلط ثابت کر دوں گی۔‘
بدھ کی صبح جب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 14،14 سال کی سزا سنائی تو بشریٰ بیگم اس وقت اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔ نیب کی جانب سے ان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جا رہی تھیں کہ بشریٰ بیگم نے گرفتاری دینے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچ کر سب کو حیران کر دیا۔
یوں بشریٰ بیگم جن کا اگرچہ سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاریخ کے اوراق نصرت بھٹو، بے نظیر، کلثوم نواز اور مریم نواز کی صف میں کھڑی ہو گئی ہیں۔

شیئر: