پنجاب کا شمالی علاقہ اٹک سے جہلم تک پھیلا ہوا ہے، اس کی سیاسی ہیئت اور ترجیحات میں تاریخی طور پر دو عوامل کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
صوبے کے دیگر خطوں کی نسبت زراعت پر کم انحصار اور فوجی ملازمت کا زیادہ رجحان خطہ پوٹھوہار کہلانے والے اس علاقے کے سیاسی مزاج اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
پاکستان کے 12ویں انتخابات آٹھ فروری کو ہونے جا رہے ہیں۔ گذشتہ 11 انتخابات میں اس نیم میدانی علاقے سے ملک کی مقبول جماعتوں کے لیے قبولیت یا انہیں مسترد کرنے کی تاریخ سے آگہی آنے والے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے والے محرکات کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
این اے 53، جب دو بچے چوہدری نثار کے مقابلے میں میدان میں اُترےNode ID: 828511
-
پوٹھوہار ریجن کے حلقے این اے 48 سے دو ’نواز‘ آمنے سامنےNode ID: 829111
-
عام انتخابات: ملک کے وہ حلقے جہاں قریبی رشتہ دار مدمقابل ہیںNode ID: 832681
اس علاقے کی اہمیت کا سب سے بڑا سبب ملک کے سیاسی مرکز وفاقی دارالحکومت کا یہاں واقع ہونا ہے۔
اسی کے ساتھ بری افواج کا ہیڈ کوارٹر اور تحصیل کہوٹہ اور ٹیکسلا میں واقع دفاعی تنصیبات اور جنگی ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز کی موجودگی ان علاقوں کو باقی خطوں سے ممتاز بناتی ہے۔
راولپنڈی ڈویژن میں شامل اضلاع ،اٹک، فتح جنگ، چکوال اور جہلم پر مشتمل سطح مرتفع پوٹھوہار میں قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کہ 26 انتخابی حلقے ہیں۔ وفاقی دارالحکمت اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی کی نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔
پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں مختلف ادوار میں اس خطے سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی غالب اکثریت حاصل کر چکی ہیں۔
1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 9 میں سے سات حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ نے 1988 سے 2013 تک ماسوائے 2002 کے اکثریتی سیٹیں سمیٹیں۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کی لہر نے شمالی پنجاب کے 11 حلقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
تقریباً 72 لاکھ کے قریب ووٹرز کا اس بار انتخاب کون سی پارٹی ہو گی؟
بادی النظر میں اس سوال کا جواب ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کی جانب سے امیدواروں کے چناؤ، مقامی دھڑوں اور قبیلوں کی حمایت اور قومی اور علاقائی مسائل پر موقف اور کارگردگی سے جڑا ہوا ہے۔
پنجاب کے دیگر خطوں کی نسبت آبادی اور انتخابی حلقوں کی کم تعداد رکھنے والے پوٹھوہار کے اضلاع میں ایک صدی سے افواج پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
سپاہی سے لے کر سپاہ سالار تک یہاں پیدا ہوئے۔
فوجی ملازمت میں سپاہی سے افسران تک نسل در نسل چلے آنے والے خاندانوں کی قابل ذکر آبادی علاقے کی اقتصادی اور سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات پر بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سمیت بری فوج کے چار سربراہوں اور ایئر فورس کے ایک سابق چیف کا تعلق اسی خطے سے ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی کی طرف سے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی فوجی صوبیدار خداداد خان کا آبائی علاقہ ضلع چکوال میں ہے۔
کیا آبادی کے ایک کثیر حصے کے فوجی پیس منظر کا اثر علاقائی سیاست پر پڑا ہے؟
پنجاب کے ووٹرز کے انتخابی رحجان کے گہرے مطالعے اور تجزیے پر مبنی کتاب ’دی پاکستانی ووٹر: الیکٹورل پولیٹکس اینڈ ووٹنگ بیہیویئر ان دا پنجاب‘ کے مصنف اینڈریو آر وائلڈر کے مطابق اس علاقے کی معیشت کا انحصار زراعت پہ کم اور ملازمتوں اور کاروبار پر زیادہ ہے۔
اسی وجہ سے اس خطے کا دیہی ووٹر نواز شریف کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر بنایا گیا کہ وہ زرعی طبقات کی نسبت تجارتی اور کمرشل طبقوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ غیر زرعی ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں نے اس تاثر کو قبول نہیں کیا۔
مصنف کی رائے میں اس خطے کے شہری مراکز کی پڑھی لکھی ملازمت پیشہ مڈل کلاس نے 1988 سے 1993 کے الیکشن میں روایت پسند مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔
اسی طرح یہی جماعت فوجی خدمات والے علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پیپلز پارٹی کی نسبت زیادہ قابل قبول ہے۔
انہوں نے سابق فوجی حکمراں ضیاالحق کے فرزند اعجازالحق کی راولپنڈی سے 1990 اور 93 کے الیکشن میں کامیابی کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
پوٹھوہار کی سیاسی ترجیحات کا تعین کس بنیاد پر؟