Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فوجی مرکز‘ پوٹھوہار کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں؟

خطہ پوٹھوہار میں زراعت سے زیادہ فوج میں شمولیت کا رجحان رہا ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
پنجاب کا شمالی علاقہ اٹک سے جہلم تک پھیلا ہوا ہے، اس کی سیاسی ہیئت اور ترجیحات میں تاریخی طور پر دو عوامل کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
صوبے کے دیگر خطوں کی نسبت زراعت پر کم انحصار اور فوجی ملازمت کا زیادہ رجحان خطہ پوٹھوہار کہلانے والے اس علاقے کے سیاسی مزاج اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
پاکستان کے 12ویں انتخابات آٹھ فروری کو ہونے جا رہے ہیں۔ گذشتہ 11 انتخابات میں اس نیم میدانی علاقے سے ملک کی مقبول جماعتوں کے لیے قبولیت یا انہیں مسترد کرنے کی تاریخ سے آگہی آنے والے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے والے محرکات کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اس علاقے کی اہمیت کا سب سے بڑا سبب ملک کے سیاسی مرکز وفاقی دارالحکومت کا یہاں واقع ہونا ہے۔
اسی کے ساتھ بری افواج کا ہیڈ کوارٹر اور تحصیل کہوٹہ اور ٹیکسلا میں واقع دفاعی تنصیبات اور جنگی ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز کی موجودگی ان علاقوں کو باقی خطوں سے ممتاز بناتی ہے۔
راولپنڈی ڈویژن میں شامل اضلاع ،اٹک، فتح جنگ، چکوال اور جہلم پر مشتمل سطح مرتفع پوٹھوہار میں قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کہ 26 انتخابی حلقے ہیں۔ وفاقی دارالحکمت اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی کی نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔
پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں مختلف ادوار میں اس خطے سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی غالب اکثریت حاصل کر چکی ہیں۔

اٹک کے پل سے جہلم کے پل کے تک کے علاقے کو پوٹھوہار سمجھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک، اٹک پیج)

1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 9 میں سے سات حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم لیگ نے 1988 سے 2013 تک ماسوائے 2002 کے اکثریتی سیٹیں سمیٹیں۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی کی لہر نے شمالی پنجاب کے 11 حلقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

تقریباً 72 لاکھ کے قریب ووٹرز کا اس بار انتخاب کون سی پارٹی ہو گی؟

بادی النظر میں اس سوال کا جواب ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کی جانب سے امیدواروں کے چناؤ، مقامی دھڑوں اور قبیلوں کی حمایت اور قومی اور علاقائی مسائل پر موقف اور کارگردگی سے جڑا ہوا ہے۔
پنجاب کے دیگر خطوں کی نسبت آبادی اور انتخابی حلقوں کی کم تعداد رکھنے والے پوٹھوہار کے اضلاع میں ایک صدی سے افواج پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والوں کا  تناسب سب سے زیادہ ہے۔
سپاہی سے لے کر سپاہ سالار تک یہاں پیدا ہوئے۔ 
فوجی ملازمت میں سپاہی سے افسران تک  نسل در نسل چلے آنے والے خاندانوں کی قابل ذکر آبادی علاقے کی اقتصادی اور سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات پر بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔ 
پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سمیت بری فوج کے چار سربراہوں اور ایئر فورس کے ایک سابق چیف کا تعلق اسی خطے سے ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی کی طرف سے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی فوجی صوبیدار خداداد خان کا آبائی علاقہ ضلع چکوال میں ہے۔

ارمی چیف جنرل سید عاصم منیر سمیت  بری فوج کے چار سربراہوں اور ایئر فورس کے ایک سابق چیف کا تعلق پوٹھوہار سے ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

کیا آبادی کے ایک کثیر حصے کے فوجی پیس منظر کا اثر علاقائی سیاست پر پڑا ہے؟

پنجاب کے ووٹرز کے انتخابی رحجان کے گہرے مطالعے اور تجزیے پر مبنی کتاب ’دی پاکستانی ووٹر: الیکٹورل پولیٹکس اینڈ ووٹنگ بیہیویئر ان دا پنجاب‘ کے مصنف اینڈریو آر وائلڈر کے مطابق اس علاقے کی معیشت کا انحصار زراعت پہ کم اور ملازمتوں اور کاروبار پر زیادہ ہے۔
اسی وجہ سے اس خطے کا دیہی ووٹر نواز شریف کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر بنایا گیا کہ وہ زرعی طبقات کی نسبت تجارتی اور کمرشل طبقوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ غیر زرعی ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں نے اس تاثر کو قبول نہیں کیا۔
مصنف کی رائے میں اس خطے کے شہری مراکز کی پڑھی لکھی ملازمت پیشہ مڈل کلاس نے 1988 سے 1993 کے الیکشن میں روایت پسند مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔
اسی طرح یہی جماعت فوجی خدمات والے علاقوں کے رہائشیوں کے لیے پیپلز پارٹی کی نسبت زیادہ قابل قبول ہے۔
انہوں نے سابق فوجی حکمراں ضیاالحق کے فرزند اعجازالحق کی راولپنڈی سے 1990 اور 93 کے الیکشن میں کامیابی کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔

پوٹھوہار کی سیاسی ترجیحات کا تعین کس بنیاد پر؟

شاید پیپلز پارٹی نے 1993 میں فوجی خاندانوں سے وابستہ ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے انہی میں سے ایک نو آموز امیدوار کو میدان میں اتارا۔ حیرت انگیز طور پر اس امیدوار نے بھاری ووٹ حاصل کر لیے اور محض پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کھا گیا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ 31 برس بعد اسی حلقے سے مسلم لیگ ن نے بھی کئی بار کے فاتح امیدوار کے بجائے ایک نئے اور نوجوان چہرے کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 1993 میں سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز مرحوم کے بھائی شاہد نواز کو جہلم سے قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے ٹکٹ دیا تھا۔
اب مسلم لیگ ن نے آنے والے انتخابات کے لیے افواج کے سابق سرجن جنرل میجر جنرل ریٹائرڈ اظہر محمود کیانی کے بیٹے بلال اظہر کیانی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نامزد کیا ہے۔
چکوال سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مجید ملک سابق فوجی افسران میں سے سب سے زیادہ کامیاب سیاسی کیریئر رکھنے والے افسر تھے۔ وہ چھ بار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔
راولپنڈی سے سات بار ممبر قومی اسمبلی رہنے والے کا تعلق بھی ایک فوجی گھرانے سے ہے۔ ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان سابق سیکریٹری دفاع رہ چکے ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کا تعلق بھی خطہ پوٹھوہار سے ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

فوجی پس منظر نہیں سیاسی حالات کی اہمیت ہے 

تاریخی طور پر فوجی ملازمتوں والے علاقوں کے لوگوں کے سیاسی ترجیحات کا سوال اردو نیوز نے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کے سامنے رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج سے وابستہ رہنے والے افراد اور ان کے خاندان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کی ترجیحات باقی معاشرے جیسی ہو سکتی ہیں۔ انہیں اپنے پیشے کی وجہ سے سیاسی پسند ناپسند میں باقی معاشرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور تنوع پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور اور تجزیہ نگار پروفیسر طاہر نعیم ملک نے اس مفروضے کے حوالے سے ایک نیا پہلو ہمارے سامنے رکھا۔
ان کا کہنا ہے کہ پوٹھوہار کے ووٹر ز پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز جمہوری اقدار ہیں نہ کہ کسی ایک طبقے کی پسند۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس خطے میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی تاریخ پرانی ہے۔ ایوب خان کے خلاف طلبہ کی ہنگامہ خیز تحریک راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے سے شروع ہوئی تھی۔
اسی طرح ایئر فورس کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایک سیاسی ورکر خورشید حسن میر سے شکست کھا گئے تھے۔
پروفیسر طاہر نعیم نے مزید مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ضیا الحق دور کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق 1985 کا الیکشن ہار گئے تھے۔ اسی طرح اعجاز الحق 1988 میں راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے راجہ شاہد ظفر کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔

پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس آ سکتی ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پنجاب ان کی پارٹی کا مرکز تھا اور وہ اسے دوبارہ حاصل کریں گے۔
گذشتہ دو انتخابات کی نسبت اس بار پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مہم کو منظم اور مربوط بنایا ہے۔ وہ پرانے کارکنوں اور رہنماؤں کو ایک بار پھر متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ 1970 میں شمالی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابیوں نے جو وہ ووٹ بینک پیدا کیا تھا وہ تحلیل کیوں ہوا اور کیا اب اس کی واپسی ممکن ہے؟
گذشتہ 11 انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کچھ ایسے حقائق سامنے لاتا ہے جس کی روشنی میں پی پی پی کی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کی حکمت عملی کے نتائج کو سمجھا جا سکتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر 1993 اور 2008 میں جب اس جماعت نے وفاق میں حکومت بنائی مگر شمالی پنجاب میں اسے بالترتیب ایک اور دو نشستیں مل سکی۔
اس سیاسی زوال کی ایک وجہ 1985 میں کامیاب ہونے والے سیاست دانوں کی نئی کھیپ بھی ہے۔ جنہوں نے اپنے علاقوں اور ذات برادری کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے متبادل اپنے حلقہ اثر والے حلقے قائم کر لیے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے ساتھ برسوں کی سیاسی رفاقتیں رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی کی دوری نے پوٹھوہار میں پارٹی کی تنظیم کو بارسوخ اور جیت کی اہلیت رکھنے والے رہنماؤں سے خالی کر دیا ہے۔
جہلم سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین پی پی پی سے اپنے راستے جدا کر چکے ہیں۔ اسی شہر سے 1988 کا الیکشن جیتنے والے سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف کے بیٹے اور ماضی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے فرخ الطاف موجودہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔
1988 میں اٹک سے ممبر قومی اسمبلی بننے والے پیپلز پارٹی کے پرانے لیڈر ملک محمد اسلم کے صاحبزادے ملک امین اسلم  پیپلز پارٹی چھوڑ کر 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔ عمران خان کی گزشتہ حکومت میں وہ مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
راولپنڈی سے گذشتہ دو انتخابات پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر  جیتنے والے غلام سرور خان بھی 1990 اور 1993 کا الیکشن پیپلز پارٹی کی طرف سے لڑ چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو 1993 میں راولپنڈی ڈویژن سے اکلوتی سیٹ دلوانے والے چکوال کے سردار ممتاز پارٹی سے ٹوٹ کر 2013 میں اسی حلقے سے ن لیگ کے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔

غلام مرتضٰی ستی 2002 میں راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی بنے تھے۔ (فوٹو: پوٹھوہار نیوز)

غلام مرتضی ستی 2002 میں راولپنڈی ون سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے بنے تھے مگر گذشتہ الیکشن میں وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک کے خیال میں پیپلز پارٹی کی سیاسی ناکامیوں میں اس جماعت کی اپنی غلطیوں کے ساتھ ساتھ غیرجمہوری قوتوں کی منصوبہ بندی کا بھی عمل دخل ہے۔
ان کے خیال میں اب بھی پیپلز پارٹی کا اس خطے کے انتخابی حلقوں میں 10 ہزار سے 20 ہزار تک ووٹ بینک موجود ہے۔ مختلف رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بے نظیر بھٹو کی موت کو ایک اہم سبب قرار دیا۔
ان کی نظر میں بلاول بھٹو کی جارحانہ سیاسی مہم کا مقصد اینٹی نواز شریف ووٹ کو ایک بار پھر اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔

پرو اور اینٹی نواز ووٹ بینک کتنا مؤثر؟

ضیاالحق کی موت کے بعد اگلے دو انتخابات ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق کے حامیوں کے درمیان لڑے گئے۔ مگر 1993 کے بحران میں نواز شریف کی مقبولیت کے بعد انتخابات میں پرو اور اینٹی نواز شریف فیکٹر شامل ہو گیا۔
پرو نواز شریف سیاسی جذبات کا اظہار 1997 کے انتخابات میں ہوا۔ جب مسلم لیگ ن نے شمالی پنجاب سے تمام نشستیں جیت لیں۔ اسی طرح 2013 کے الیکشن میں نواز شریف کی ذات ان کی پارٹی کے لیے کامیابی کی وجہ بنی۔
نواز شریف کی 2002 اور 2018 کے انتخابات میں عدم موجودگی نے اینٹی نواز قوتوں کو مضبوط کیا۔ باقی ملک کی طرح مسلم لیگ ن پوٹھوہار میں صرف ایک سیٹ تک محدود ہو گئی۔
 

راولپنڈی سے پچھلے دو الیکشن چوہدری غلام سرور نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے۔ (فوٹو: اے پی پی)

پاکستانی سیاست میں نواز شریف فیکٹر میں 2013 کے بعد کیا تبدیلی آئی اور آنے والے الیکشن میں اس کا نتائج پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں قائد اعظم یونیورسٹی آسلام اباد کے سکول اف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر مجیب افضل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اینٹی نواز ووٹ تاریخی طور پر پیپلز پارٹی کو ملتا رہا ہے۔ مگر 2013 میں پی ٹی آئی کے منظر عام پہ آنے سے اس ووٹ بینک کا بہت بڑا حصہ پی ٹی آئی کو منتقل ہو گیا۔ اس کی وجوہات میں عمران خان کی طرف سے شریف برادران پر جارحانہ تنقید اور پیپلز پارٹی کی الیکشن میں مایوس کن کارکردگی بھی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا نواز مخالف ووٹ بینک جب عمران خان کے نئے بننے والے نوجوان ووٹر کے ساتھ اکٹھا ہوا تو اس نے تحریک انصاف کو 2018 کے الیکشن میں کامیابی دلوائی۔
اس پارٹی نے 2018 میں راولپنڈی ڈویژن کی 10 نشستیں جیتی تھیں۔ یہی سے پرو عمران ووٹ بینک کی صورت میں ہماری سیاست میں ایک نیا فیکٹر داخل ہو گیا۔

انتخابات 2024 فیصلہ کن عوامل کیا ہوں گے؟

توشہ خانہ کیس میں سزا پانے والے عمران خان کو اب سائفر کیس میں بھی 10 برس قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔
ان حالات میں پرو عمران خان ووٹ بینک کتنا بروئے کار لایا جا سکتا ہے یا تحریک انصاف کا اینٹی نواز بیانیہ اس کے لیے کتنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے؟
پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کا ایک بڑا حصہ اپنی جگہ موجود ہے مگر اس کی اصل مشکل تنظیمی توڑ پھوڑ اور منتخب نمائندوں اور پارٹی رہنماؤں کا جماعت سے الگ ہو جانا ہے۔
اس صورتحال کا موازنہ اگر ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ درپیش سیاسی حالات سے کیا جائے تو پی ٹی آئی بھی اسی بحران کا شکار دکھائی دیتی ہے جس سے یہ دونوں جماعتیں ماضی میں گزر چکی ہیں۔
راولپنڈی ڈویژن  سے 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سات سابق ممبران اسمبلی اس بار اس جماعت کی طرف سے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔ اس کے تین سابق ایم این ایز دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
گذشتہ الیکشن میں حصہ لینے والا صرف ایک امیدوار قومی اسمبلی کے حلقوں میں دوبارہ اس بار پی ٹی آئی کی طرف سے میدان میں ہے۔ باقی 12 حلقوں سے نئے چہرے قومی اسمبلی کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔
خطہ ہوٹھوہار کی بدلتی سیاست کا تجزیہ کرنے والے جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی آصف بشیر چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’راولپنڈی ڈویژن میں عمران خان کا ووٹ بینک تو موجود ہے مگر بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو ان کے امیدواروں کے ناموں کا علم نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات سے واقف ہوں۔‘
ان کے خیال میں 9 مئی کے واقعات کے بعد اور پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے محروم ہونے کے بعد ڈر، کنفیوژن اور نا امیدی پی ٹی آئی کے کارکنان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس کا اثر انے والے انتخابات کے نتائج پر بھی پڑے گا۔
اس بار پنجاب میں گذشتہ دو انتخابات کے برعکس تین سیاسی قوتوں میں مقابلے کے امکانات ہیں۔ ایسی صورت میں پنجاب کی 141 سیٹوں کے حصے دار اگر زیادہ ہوئے تو پاکستان کے سیاسی اور عسکری مراکز کے ارد گرد واقع شمالی پنجاب کے یہ انتخابی حلقے حکومت سازی میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔

شیئر: