Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مینار پاکستان سے کھڈیاں: ن لیگ کی الیکشن مہم کا اختتام

20 دن کی مختصر ترین انتخابی مہم میں نواز شریف نے ایک دو مرتبہ ایک دو ججوں کو ذکر ضرور کیا تاہم انہوں نے ہر جلسے میں ترقیاتی منصوبوں پر بات کی (فوٹو: اردو نیوز)
نواز شریف 21 اکتوبر کو تقریباً چار سال کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے تو مینار پاکستان پر ان کے ہزاروں کی تعداد میں کارکن ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ اور سیاسی پنڈت اس فکر میں تھے کہ وزیر اعظم کی کرسی سے تیسری مرتبہ ہٹائے جانے پر انہوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا جو بیانیہ اپنایا تھا اب چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے وہ اپنی کہانی کہاں سے شروع کریں گے۔
تاہم مینار پاکستان کی اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے اپنے پتے شو نہیں کیے اور صرف اتنا کہا کہ وہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور بدلے کی سیاست نہیں کرنا چاہیے۔
مگر سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ نواز شریف انتخابی مہم کے دوران اپنے اصلی بیانیے کو اپنائیں گے اور پھر ایسا ہوا بھی۔
الیکشن کی تاریخ 8 فروری سامنے آنے کے بعد دسمبر کا پورا مہینہ نواز شریف نے روزانہ کی بنیاد پر ملک بھر سے امیدواروں کے انٹرویو کیے اور ان سے کی گئی گفتگو ٹیلیویژنز پر براہ راست نشر کی گئی جس میں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی جھلک موجود تھی۔
انہوں نے ان ججوں اور جرنیلوں کا نام لے کر کہا کہ ان سے حساب لیا جانا چاہیے جنہوں نے ان کی حکومت 2017 میں ختم کی۔
البتہ جب ٹکٹوں کی تقسیم سے فراغت ہوئی اور جنوری کے وسط میں الیکشن سے محض 20 دن پہلے انہوں نے حافظ آباد سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو ان کی مختصر تقریر میں صرف ملک کو ترقی دینے سے متعلق تھی۔ ایک اور اہم بات ہوئی کہ انہوں نے مریم نواز کو اپنے سے بعد تقریر کی دعوت دی۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ اپنی سیاسی وراثت اب مریم نواز کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن میں ہمیشہ دو بیانیوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے ایک نواز شریف کا بیانیہ جس میں ٹکراؤ کی جھلک رہی ہے اور دوسرا شہباز شریف کا مصالحتی بیانیہ جس میں صرف ملکی ترقی کے منصوبوں کی بات ہوتی ہے۔
20 دن کی مختصر ترین انتخابی مہم میں نواز شریف نے ایک دو مرتبہ ایک دو ججوں کو ذکر ضرور کیا تاہم انہوں نے ہر جلسے میں ترقیاتی منصوبوں پر بات کی۔
اس دوران شہباز شریف نے واضح طور ووٹ کو عزت دو نعرے کی نئی تشریح جاری کر دی کہ اس کا مطلب ووٹروں کی امنگوں پر پورا اترنا ہے۔

مسلم لیگ ن کا آخری جلسہ:

انتخابی مہم کے آخری جلسے کے لیے مسلم لیگ ن نے قصور کے قصبے کھڈیاں کا انتخاب کیا تھا۔ قصور کے حلقہ این اے 132 سے شہباز شریف قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔

انتخابی مہم کے آخری جلسے کے لیے مسلم لیگ ن نے قصور کے قصبے کھڈیاں کا انتخاب کیا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

وطن واپسی کے بعد نواز شریف نے مینار پاکستان سمیت تقریباً تمام جلسوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے شرکت کی۔ کھڈیاں کے ہائی سکول گراؤنڈ میں ہی ان کا ہیلی پیڈ بنایا گیا تھا۔ ان کی سکیورٹی  پروٹوکول اور ضلعی انتظامیہ کی تیاریوں سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ سسٹم ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی انہیں قبول کر چکا ہے۔
 کھڈیاں ایک پسماندہ قصبہ ہے۔ ہائی سکول سے جلسہ گراؤنڈ تک چپے چپے پر سکیورٹی اہلکار معمور تھے۔ ہیلی پیڈ سے انہیں بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں جلسہ گاہ تک لایا گیا۔
راستے میں آنے والے جوڑوں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کے سامنے ضلعی انتظامیہ نے ٹینٹ لگا رکھے تھے تاکہ ان کی بدصورتی پر نظر نہ پڑے۔
نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز اکھٹے جلسہ گاہ پہنچے تو جلسہ گاہ ایک دیہاتی علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں گرؤانڈ کے باہر ٹریکٹر ٹرالیوں کی بہتات تھی جس میں اردو گرد کے لوگ جلسے میں شرکت کے لیے لائے گئے تھے۔ دور دور تک گھروں کی چھتوں پر بھی خواتین جلسے کو دیکھ رہی تھیں۔
کھڈیاں  کے آخری جلسے میں مگر ترتیب بدل دی گئی۔ سب سے پہلے مریم نواز نے تقریر کی۔ ان کی تقریر نواز شریف کی مینار پاکستان تقریر سے مشابہت رکھتی تھی۔ انہوں نے اقتدار کی صورت میں بدلے کی سیاست کو دفن کرنے کا اعلان کیا اور تحریک انصاف نے کارکنوں کو بھی مخاطب کر کے جھگڑے ختم کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے پر بات کی۔
ان کی ساری تقریر ترقی کے بیانیے پر تھی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن کے اندر بھی ترقی کا بیانیہ جیت چکا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

دوسرے نمبر پر شہباز شریف کی باری آئی تو انہوں نے برملا کہا کہ مریم نواز تقریباً ساری باتیں کر دی ہیں۔ ان کی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا کہ ان کے مصالحت پسندانہ بیانیے کی جیت ہوئی ہے۔
یہ پہلا اور آخری جلسہ تھا جس میں نواز شریف نے آخری تقریر کی۔ انتخابی جلسوں کی انتخابی تقریر میں نواز شریف نے بھی شہباز شریف کو جیت کی صورت میں کھڈیاں میں سڑکیں گلیاں اور دانش سکول بنائیں۔
سیاسی مبصرین کو بھی اختتامی تقریر سے اس بات کا جواب مل گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ترقی کا بیانیہ جیت چکا ہے اور یہ جماعت اسی منشور کے ساتھ الیکشن میں جا رہی ہے۔

شیئر: